غزل: چاک کرتے ہیں گریباں اس فراوانی سے ہم ٭ احمد جاوید

چاک کرتے ہیں گریباں اس فراوانی سے ہم
روز خلعت پاتے ہیں دربارِ عریانی سے ہم

منتخب کرتے ہیں میدانِ شکست اپنے لیے
خاک پر گرتے ہیں لیکن اوجِ سلطانی سے ہم

ہم زمینِ قتل گہ پر چلتے ہیں سینے کے بل
جادۂ شمشیر سر کرتے ہیں پیشانی سے ہم

ہاں میاں دنیا کی چم خم خوب ہے اپنی جگہ
اک ذرا گھبرا گئے ہیں دل کی ویرانی سے ہم

ضعف ہے حد سے زیادہ لیکن اس کے باوجود
زندگی سے ہاتھ اٹھا سکتے ہیں آسانی سے ہم

دل سے باہر آج تک ہم نے قدم رکھا نہیں
دیکھنے میں ظاہراً لگتے ہیں سیلانی سے ہم

ذرہ ذرہ جگمگاتی جلوہ بارانیِ دوست
دیکھتے ہیں روزنِ دیوار حیرانی سے ہم

عقل والو! خیر جانے دو نہیں سمجھو گے تم
جس جگہ پہنچے ہیں راہِ چاک دامانی سے ہم

کاروبارِ زندگی سے جی چراتے ہیں سبھی
جیسے درویشی سے تم مثلاً جہاں بانی سے ہم

٭٭٭
احمد جاوید
 

محمد وارث

لائبریرین
کاروبارِ زندگی سے جی چراتے ہیں سبھی
جیسے درویشی سے تم مثلاً جہاں بانی سے ہم

کیا عمدہ شعر ہے ،واللہ۔ :)
 
Top