نظر لکھنوی غزل: ٹلتی ہی نہیں اب تو بلائیں مرے سر سے ٭ نظرؔ لکھنوی

ٹلتی ہی نہیں اب تو بلائیں مرے سر سے
مدت ہوئی رحمت کی گھٹاؤں کو بھی برسے

طائر جو سرِ شاخ پہ بیٹھے ہیں نڈر سے
کیا عہد کوئی باندھ لیا برق و شرر سے

اب مجھ کو نہیں شغلِ مے و جام سے مطلب
مخمور ہوا دل ترے فیضانِ نظر سے

سو رازِ حقائق سے اٹھا دیتی ہے پردہ
وہ ایک حقیقت کہ چھپی چشمِ بشر سے

وہ خاک بسر ہو کے رہے اشکِ فروزاں
جو دور ہوئے انجمنِ دیدۂ تر سے

اک آگ سی مدت سے نظرؔ دل میں لگی ہے
اللہ کرے اشک مری آنکھ سے برسے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top