ماہر القادری غزل: وہ عربده جُو، معصوم ادا، قاتل بھی ہے اور قاتل بھی نہیں

وہ عربده جُو، معصوم ادا، قاتل بھی ہے اور قاتل بھی نہیں
دل اس کی ادائے سادہ کا بسمل بھی ہے اور بسمل بھی نہیں

وعدے پہ نہیں آتا سچ ہے، پر یاد تو اس کو آتی ہے
اس جانِ محبت کا وعده باطل بھی ہے اور باطل بھی نہیں

دیکھو تو ہر اک سے بیگانہ، سمجھو تو کسی کا دیوانہ
دل یار کی بزمِ عشرت میں شامل بھی ہے اور شامل بھی نہیں

ظاہر میں ہر اک شے پر قبضہ، باطن میں نہ ذرہ بھی بس کا
دنیا میں ہماری ہستی کا حاصل بھی ہے اور حاصل بھی نہیں

ہر دل ہے نشیمن کاشانہ، اس پر بھی تباہ و ویرانہ
اس جانِ جہاں کے جلووں کی منزل بھی ہے اور منزل بھی نہیں

دیوانہ مگر اہلِ عرفاں، تاریک مگر مہرِ تاباں
دل تیری نگاہِ الفت کے قابل بھی ہے اور قابل بھی نہیں

ایقان تذبذب کا زخمی، عرفاں کی شعاعیں دھندلی سی
دنیا تری روشن ہستی کی قائل بھی ہے اور قائل بھی نہیں

ہے جذبۂ کامل کے دم تک، نظارے کی یہ فردوس گری
اے قیس، بگولا صحرا کا محمل بھی ہے اور محمل بھی نہیں

عرفانِ خودی ہے عین بقا، احساسِ خودی پیغامِ فنا
ہستی مری راہِ الفت میں حائل بھی ہے اور حائل بھی نہیں

جو ڈوب گیا وہ پار اترا جو سطح پہ تھا وہ تر نہ سکا
دریائے محبت کا ماہرؔ ساحل بھی ہے اور ساحل بھی نہیں

٭٭٭
ماہرؔ القادریؒ
 
Top