امجد اسلام امجد غزل - وہ دن گئے کہ دیکھتے عزّت ہے کس کے پاس

وہ دن گئے کہ دیکھتے عزّت ہے کس کے پاس
اب مسئلہ ہے صرف کہ طاقت ہے کس کے پاس

گرتے ہوؤں کو تھام لے، رستہ کسی کو دے
عُجلت زدوں کی بھیڑ میں فرصت ہے کس کے پاس

بس اس پہ ہوگا فیصلہ، افراد ہوں کہ قوم
رزقِ شعور، علم کی دولت ہے کس کے پاس

صدیوں سے اپنی آنکھ میں ٹھہرے ہیں کچھ اصول
کُھلتا نہیں نفاذ کی طاقت ہے کس کے پاس

آنکھیں تو سب کے پاس ہیں پر دیکھنا یہ ہے
ان منظروں میں ڈولتی حیرت ہے کس کے پاس

یہ عرصۂ حیات تو قدموں کی دھول ہے
جس کو نہ ہو زوال وہ شہرت ہے کس کے پاس

معلوم ہی نہیں کہ ہے آقاؐ کا دَر کہاں
سر کو جھکائے بیٹھی یہ اُمّت ہے کس کے پاس

کس کے سفر میں ماں کی دعائیں ہیں ساتھ ساتھ
روزِ جزا سے قبل یہ جنّت ہے کس کے پاس

دیکھو تو ان کے مال کا ممکن نہیں شمار
لیکن سکونِ قلب کی راحت ہے کس کے پاس

لیتے ہو تم جو قیس کا اور کوہ کَن کا نام
اُن کے جنوں کی کاذبو، شدّت ہے کس کے پاس

دنیا کی بیوفائی پہ حیرت ہے کس لئے
رہتی تمام عمر یہ عورت ہے کس کے پاس

اچھی بہت ہیں آنکھیں تری اے غزالِ جاں
ایسی کشش کہاں ہے! یہ وحشت ہے کس

منظر کے پار ہوتے ہیں منظر کچھ اور بھی
جو اِن کو دیکھ لے وہ بصیرت ہے کس کے پاس

امجد کسی کے سامنے کیجے نہ عرضِ حال
اس رہگزر میں اتنی فراغت ہے کس کے پاس

(امجد اسلام امجد)

مجموعہ کلام: ہم اُس کے ہیں
کلیات ۔ غزلیں
صفحات 25-26
 
Top