غزل: میں اپنی جنت اور اپنی دوزخ میں ایک ہی پل میں جی رہا ہوں

میں اپنی جنت اور اپنی دوزخ میں ایک ہی پل میں جی رہا ہوں
کسی کا آزار بن گیا ہوں کسی کے زخموں کو سی رہا ہوں

کسی کی فرقت کو سہہ رہا ہوں تو جھیلتا ہوں کوئی رفاقت
مرے مقدر میں جو لکھے ہیں وہ زہر سارے میں پی رہا ہوں

وہ مجھ سے مانوس ہو رہے ہیں کہ ظاہری سی ہے مسکراہٹ
میں زندگی بھر اسی تشکک، اسی تذبذب میں ہی رہا ہوں

ہے دوغلی سی مری کہانی، وثوق سے کچھ نہیں ہے ثابت
اگرچہ ہوں معتبر جنوں میں ، مگر میں با ہوش بھی رہا ہوں

شکیل ہے بے کلی سی دل میں مگر سکوں بھی ہے ایک گونہ
کہ یاد اس کی ہے اب بھی دل میں میں ساتھ جس کے کبھی رہا ہوں

محترم الف عین اور
محترم محمد خلیل الرحمٰن
و دیگر اساتذہ اور احباب کی نذر
 
میں اپنی جنت اور اپنی دوزخ میں ایک ہی پل میں جی رہا ہوں
کسی کا آزار بن گیا ہوں کسی کے زخموں کو سی رہا ہوں

کسی کی فرقت کو سہہ رہا ہوں تو جھیلتا ہوں کوئی رفاقت
مرے مقدر میں جو لکھے ہیں وہ زہر سارے میں پی رہا ہوں

وہ مجھ سے مانوس ہو رہے ہیں کہ ظاہری سی ہے مسکراہٹ
میں زندگی بھر اسی تشکک، اسی تذبذب میں ہی رہا ہوں

ہے دوغلی سی مری کہانی، وثوق سے کچھ نہیں ہے ثابت
اگرچہ ہوں معتبر جنوں میں ، مگر میں با ہوش بھی رہا ہوں

شکیل ہے بے کلی سی دل میں مگر سکوں بھی ہے ایک گونہ
کہ یاد اس کی ہے اب بھی دل میں میں ساتھ جس کے کبھی رہا ہوں

محترم الف عین اور
محترم محمد خلیل الرحمٰن
و دیگر اساتذہ اور احباب کی نذر
شکیل صاحب ، اچھی غزل کہی ہے ، بھائی ! داد حاضر ہے .
 
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں شکیل بھائی !
بڑی بحر میں پہلی غزل دیکھی ہے یہ آپ کی ۔ خوب!
حوصلہ افزائی کا شکریہ جناب
جیسا پہلے بھی اکثر لکھ چکا کہ بحر کا انتخاب مجھ سے شعوری طور پر نہیں ہوتا، بس جس بحر میں ایک دو شعر یا کبھی ایک مصرع بھی موزوں ہوجائے اسی کو لے کر چل پڑتا ہوں
 
Top