غزل : میرا ہر زخم میری سوچ سے گہرا نکلا : از : سید ابوبکر مالکی

bhatkal

محفلین
میرا ہر زخم میری سوچ سے گہرا نکلا
مسکراتا ہوا پھر بھی میرا چہرہ نکلا
میری قسمت کہ کبھی پیاس نہیں بجھ پائی
میں سمندر سے گزرتا ہوا پیاسا نکلا
پیار دنیا کی ہر دیوار گرا دیتی ہے
جو بظاہر تھا پرایا وہی اپنا نکلا
یہ کوئی بھول تھی میری یا نظر کا دھوکہ
جو لگا مجھ کو سمندر وہی صحرا نکلا
ایک مجبور تڑپتا رہا خاموش تھے سب
میری انکھوں سے مگر خون کا قطرہ نکلا
تجھ سے امید وفا باندھ رکھی تھی میں نے
میں نے سوچا تھا کچھ اور مگر کیا نکلا
میں زمانے کی نگاہوں میں کھٹکتا ہی رہا
دل پہ پہرہ تو کبھی پیار پہ پہرہ نکلا
کون سنتا ہے زمانے میں کسی کا دکھڑا
میں جسے درد سناتا رہا بہرہ نکلا
کس لئے مجھ کو ڈراتا ہے زمانہ سید
میں جسے بھوت سمجھتا رہا سایا نکلا
(سید ابوبکر مالکی ۔ بھٹکل)
 

شمشاد

لائبریرین
بھٹکل صاحب یہ آپ کا اپنا کلام ہے کیا؟

اردو محفل میں طرح مشاعرہ ہو رہا ہے، وہاں بھی اپنا کلام بھیج سکتے ہیں۔
 

مغزل

محفلین
مالکی صاحب ، اردو محفل میں صمیمِ قلب سے خوش آمدید آپ کی یہ غزل دیگر دو فورمز بشمول بزمِ اردو انجمن میں بھی پڑھنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ سرور عالم راز صاحب یہاں بھی کرم فرماتے ہیں ۔ کسی بھی نوع کی مدد درکار ہو تو حکم کیجے گا۔ فی الوقت رسید حاضر ہے ، انشا اللہ بشرطِ فرصت حاضر ہوتا ہوں۔۔ آپ سے گزارش ہے کہ اپنے تعارف کی لڑی میں کرم فرمائیں ۔
 
Top