غزل: مہتاب و کہکشاں کی مثالوں كے باوجود

احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
بَیاض میں کوئی پندرہ سال پرانی ایک غزل نگاہ سے گزری جو خاکسار نے جناب طارق منظور كے مصرعے پر کہی تھی . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

مہتاب و کہکشاں کی مثالوں كے باوجود
تاریک کیوں ہے شہر اجالوں كے باوجود

خوش ہوں کہ اہلِ شہر كے ما بین رسم و راہ
قائم ہے میرِ شہر کی چالوں كے باوجود

محتاط ہو گئے ہیں زمانے کو دیکھ کر
’خوشبو کہیں نہ مشک، غزالوں كے باوجود‘

اے زیست ، تجھ میں اتنی کشش کیوں ہے آج بھی
اندوہ و درد و یاس كے سالوں كے باوجود

کچھ رنج آدمی کو کبھی چھوڑتے نہیں
ساقی ، مۓ طرب كے پیالوں كے باوجود

ہَم ہی میں عیب ہے جو تمہاری نگاہ میں
نا معتبر ہیں نیک خیالوں كے باوجود

غیرت نے میرے سارے دکھوں کو رکھا ہے راز
احباب و اقربا كے سوالوں كے باوجود

ہَم وہ نہیں جو راہ كے کانٹوں سے خوف کھائیں
عزمِ سفر ہے پاؤں كے چھالوں كے باوجود

عابدؔ وہ بات جس پہ تھیں پابندیاں ہزار
ہَم کہہ گئے زبان پہ تالوں كے باوجود

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 

صابرہ امین

لائبریرین
ہَم وہ نہیں جو راہ كے کانٹوں سے خوف کھائیں
عزمِ سفر ہے پاؤں كے چھالوں كے باوجود

واہ، عمدہ غزل ۔ داد قبول کیجیے۔۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
مہتاب و کہکشاں کی مثالوں كے باوجود
تاریک کیوں ہے شہر اجالوں كے باوجود

خوش ہوں کہ اہلِ شہر كے ما بین رسم و راہ
قائم ہے میرِ شہر کی چالوں كے باوجود

محتاط ہو گئے ہیں زمانے کو دیکھ کر
’خوشبو کہیں نہ مشک، غزالوں كے باوجود‘

اے زیست ، تجھ میں اتنی کشش کیوں ہے آج بھی
اندوہ و درد و یاس كے سالوں كے باوجود

کچھ رنج آدمی کو کبھی چھوڑتے نہیں
ساقی ، مۓ طرب كے پیالوں كے باوجود

ہَم ہی میں عیب ہے جو تمہاری نگاہ میں
نا معتبر ہیں نیک خیالوں كے باوجود

غیرت نے میرے سارے دکھوں کو رکھا ہے راز
احباب و اقربا كے سوالوں كے باوجود

ہَم وہ نہیں جو راہ كے کانٹوں سے خوف کھائیں
عزمِ سفر ہے پاؤں كے چھالوں كے باوجود

عابدؔ وہ بات جس پہ تھیں پابندیاں ہزار
ہَم کہہ گئے زبان پہ تالوں كے باوجود
واہ ۔ واہ۔ غزل کا ہر شعر لاجواب۔
عمدہ غزل ہے عرفان علوی بھائی۔
سلامت رہیئے۔ آمین۔
 

امین شارق

محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
بَیاض میں کوئی پندرہ سال پرانی ایک غزل نگاہ سے گزری جو خاکسار نے جناب طارق منظور كے مصرعے پر کہی تھی . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

مہتاب و کہکشاں کی مثالوں كے باوجود
تاریک کیوں ہے شہر اجالوں كے باوجود

خوش ہوں کہ اہلِ شہر كے ما بین رسم و راہ
قائم ہے میرِ شہر کی چالوں كے باوجود

محتاط ہو گئے ہیں زمانے کو دیکھ کر
’خوشبو کہیں نہ مشک، غزالوں كے باوجود‘

اے زیست ، تجھ میں اتنی کشش کیوں ہے آج بھی
اندوہ و درد و یاس كے سالوں كے باوجود

کچھ رنج آدمی کو کبھی چھوڑتے نہیں
ساقی ، مۓ طرب كے پیالوں كے باوجود

ہَم ہی میں عیب ہے جو تمہاری نگاہ میں
نا معتبر ہیں نیک خیالوں كے باوجود

غیرت نے میرے سارے دکھوں کو رکھا ہے راز
احباب و اقربا كے سوالوں كے باوجود

ہَم وہ نہیں جو راہ كے کانٹوں سے خوف کھائیں
عزمِ سفر ہے پاؤں كے چھالوں كے باوجود

عابدؔ وہ بات جس پہ تھیں پابندیاں ہزار
ہَم کہہ گئے زبان پہ تالوں كے باوجود

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
واہ، عمدہ غزل ۔ داد قبول کیجیے۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
خوش ہوں کہ اہلِ شہر كے ما بین رسم و راہ
قائم ہے میرِ شہر کی چالوں كے باوجود

ہَم وہ نہیں جو راہ كے کانٹوں سے خوف کھائیں
عزمِ سفر ہے پاؤں كے چھالوں كے باوجود

عابدؔ وہ بات جس پہ تھیں پابندیاں ہزار
ہَم کہہ گئے زبان پہ تالوں كے باوجود
عمدہ ۔بہت خوب ماشاء اللہ ۔
علوی بھائی مگر گرہ کا مصرع مجھے کمزور لگا۔ابتدا میں تو بیانیہ ہی سمجھ میں نہ آسکا ۔
 
پندرہ سالوں کے باوجود اچھی غزل ہے، یعنی اس کا ثبوت کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی بات نہیں، سالوں پہلے بھی اچھی غزلیں کہتے تھے عرفان علوی
محترم اعجاز صاحب ، بھلا میں کیا اور میری ناچیز غزلیں کیا . مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ پندرہ برس قبل بھی میں محض تکبندی کرتا تھا اور آج بھی وہی حال ہے . ہاں ، اگر کبھی کوئی کاوش آپ جیسے سخن فہم شخص کو پسند آ جائے تو لگتا ہے کہ یہ سفر رائگاں نہیں گیا . حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ !
 
Top