غزل: مجھ کو ہونے لگی پریشانی

غزل

مجھ کو ہونے لگی پریشانی
دیکھ کر آپ کی پریشانی

مجھ سے کچھ دور پر رکی ہیں آپ
کوئی وحشت؟ کوئی پریشانی؟

آپ بھی چپ ہیں میں بھی ہوں خاموش
اس سے ہوگی پڑی پریشانی

آپ بھی آئیں گے، ارے چھوڑیں
ہے یہاں پہلے ہی پریشانی

پھر مجھے دیکھتی ہے مڑ مڑ کر
ہاتھ ملتی ہوئی پریشانی

عیش و راحت پہ طنز کرتا ہوں
میں کبھی اور کبھی پریشانی

گفتگو پھر حجازؔ کی مبہم
اور وہی تم وہی پریشانی

مہدی نقوی حجازؔ
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
کیا خوب پریشانی بھری غزل ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد اس بھرپور اور مختصر غزل کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
خوب۔
لیکن اس شعر پر دوبارہ غور کریں
عیش و راحت پہ طنز کرتا ہوں
میں کبھی اور کبھی پریشانی
ایک تو کبھی میں او کبھی‘ ہونا چاہئے۔ دوسرے اس صورت میں جو میں سمجھا ہوں، ’کرتا ہوں‘ کا صیغہ سوال اٹھاتا ہے
 
خوب۔
لیکن اس شعر پر دوبارہ غور کریں
عیش و راحت پہ طنز کرتا ہوں
میں کبھی اور کبھی پریشانی
ایک تو کبھی میں او کبھی‘ ہونا چاہئے۔ دوسرے اس صورت میں جو میں سمجھا ہوں، ’کرتا ہوں‘ کا صیغہ سوال اٹھاتا ہے
جی حضور اس مصرعے کو یوں بدل لیا گیا ہے:
عیش و راحت پہ طنز کرتے ہیں
 
Top