غزل: مجھ سے ہٹ کر دیکھیے، مجھ کو بھلا کر دیکھیے ٭ مفتی تقی عثمانی

مجھ سے ہٹ کر دیکھیے، مجھ کو بھلا کر دیکھیے
میری الفت کا فسوں کچھ دور جا کر دیکھیے

آئنے کے جھوٹ پر ہرگز نہ کیجیے اعتبار
اپنے جلووں کو مری خلوت میں آ کر دیکھیے

کیمیا تاثیر ہے یہ ذرّۂ ناچیز دل
گر کسی کی یاد میں اس کو مٹا کر دیکھیے

مرگِ کیفِ عشق ہے ہنگامۂ روزِ وصال
دردِ الفت کا مزا فرقت میں جا کر دیکھیے

بس پسِ مژگاں ہی رکھیے آتشِ سیّالِ غم
عمر بھر کی پونجیوں کو کیوں بہا کر دیکھیے

کتنے غنچے مضطرب ہیں دل میں کھِلنے کے لیے
اپنے ہاتھوں سے ذرا نشتر لگا کر دیکھیے

حسن کے ہاتھوں میں پہلے بے نوا بن جائیے
اقتدارِ عشق کا پھر لطف اٹھا کر دیکھیے

ڈھونڈیے پھر بحرِ ظلمت میں مرادوں کے گہر
کشتیاں پہلے سرِ ساحل جلا کر دیکھیے

خشک پتھر کی رگوں میں منتظر سیرابیاں
تشنگی کی آگ سینے میں جلا کر دیکھیے

غم کے داغوں سے نہ ڈریے، ان سے پھوٹے گی بہار
ان گُلوں کو طاقِ ہستی پر سجا کر دیکھیے

گرمیِ گفتار سے جب کچھ نہ حاصل ہو سکے
بے زبانی کی زباں بھی آزما کر دیکھیے

چاہیے آسیؔ اگر لطفِ حیاتِ جاوداں
اپنی ہستی ان کی چوکھٹ پر فنا کر دیکھیے

٭٭٭
مفتی تقی عثمانی
 
Top