یاس غزل - لذّتِ زندگی مُبارک باد - مرزا یاس یگانہ

محمد وارث

لائبریرین
لذّتِ زندگی مُبارک باد
کل کی کیا فکر؟ ہر چہ بادا باد

اے خوشا زندگی کہ پہلوئے شوق
دوست کے دم قدم سے ہے آباد

دل سلامت ہے، دردِ دل نہ سہی
درد جاتا رہا کہ درد کی یاد؟

زیست کے ہیں یہی مزے واللہ
چار دن شاد، چار دن ناشاد

کون دیتا ہے دادِ ناکامی
خونِ فرہاد برسرِ فرہاد

صبر اتنا نہ کر کہ دشمن پر
تلخ ہو جائے لذّتِ بیداد

صلح کر لو یگانہ غالب سے
وہ بھی استاد، تم بھی اک استاد

(مرزا یاس یگانہ چنگیزی عظیم آبادی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہا ہا کیا خوب غزل ہے اور مقطع میں کیا طنز چھپا ہے۔ مرزا اپنے آپ کو مرزا غالب سے کم نہیں سمجھتے تھے ۔ مگر فرق صاف ظاہر ہے۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
چہ خوب۔ بہت شکریہ وارث صاحب۔
ہا ہا کیا خوب غزل ہے اور مقطع میں کیا طنز چھپا ہے۔ مرزا اپنے آپ کو مرزا غالب سے کم نہیں سمجھتے تھے ۔ مگر فرق صاف ظاہر ہے۔ :)
مقطع پڑھ کر یہی خیال مجھے بھی آیا کہ کیا "استادی" دکھائی ہے۔:laughing:
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ فرخ صاحب، شاہ صاحب اور فاتح صاحب۔

یگانہ کے استاد ہونے میں تو کوئی شک نہیں، لیکن بیچارے ساری زندگی مفلوک الحال ہی رہے، لکھنؤ کی ناانصافی کی وجہ سے اور اسی وجہ سے وہ غالب کے دشمن بھی ہو گئے تھے اور ساری زندگی تحریر و تقریر میں غالب کی تنقیص ہی کرتے رہے، اور اقبال کی بھی، مثلاً یہ شعر جو اقبال کی 'خودی' پر بھرپور چوٹ ہے:

خودی کا نشّہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

اور یگانہ مظلوم، شاعر برادران میں شاید وہ واحد شاعر ہیں جن کا منہ کالا کر کے اور گدھے پر بٹھا کر جلوس نکالا گیا تھا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یگانہ ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن جب وہ پچھلی صدی کی اوائل کی دہائیوں میں عظیم آباد سے ہجرت کر کے لکھنؤ آئے تو لکھنؤ والوں نے ان کو بالکل ہی منہ نہ لگایا، اس وقت لکھنؤ غالب کے رنگ میں رنگا ہوا تھا اور اہلیانِ لکھنؤ اپنے برے سے برے شاعر کو بھی، جو غالب کے رنگ میں کہتا تھا، باہر والے اچھے سے اچھے شاعر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے اور یہی سبب تھا یگانہ کی لکھنؤ سے دشمنی کی۔ انہوں نے لکھنؤ کے شاعروں کو، چند ایک اساتذہ کو چھوڑ کر، تو رگیدا ہی، غالب کو بھی خوب کھری کھری سنائیں، اور غالب کے کلام پر بہت زیادہ تنقید کی۔

یگانہ کی علمِ عروض پر کتاب 'چراغِ سخن' میں بھی ان کا یہی رویہ ہے، جہاں کہیں برے شعروں کی مثال دینی تھی وہاں غالب کے اشعار لکھ دیئے ہیں۔ اسی کتاب میں انکے لکھنؤ کے اساتذہ سے عروضی معرکے بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، مرحوم نے فرمایا تھا

مزارِ یاس پہ کرتے ہیں شُکر کے سجدے
دعائے خیر تو کیا اہلِ لکھنؤ کرتے
 

محمد وارث

لائبریرین
انہوں نے ایک فرقے کے خلاف ایک مضمون لکھا تھا کسی اخبار میں اور جس محلے میں رہتے تھے وہاں اسی فرقے کی اکثریت تھی، اور چونکہ تھے بھی بے یار و مددگار، سو انہوں نے پکڑ لیا اور جلوس نکال دیا۔

اسی طرح اپنے انتہائی سادہ اور غریبانہ حلیے کی وجہ سے، ایک رات آوارہ گردی کے جرم میں حوالات میں بھی گزاری، صبح جب انسپکڑ تھانے آیا تو ان کا نام جان کر بیچارہ بہت شرمندہ ہوا اور کلام سن کر ان کو عزت سے رخصت کر دیا۔

اس قسم کے واقعات اور محرومیوں کی وجہ سے وہ آخری عمر میں مخبوط الحواس ہو گئے تھے، اسی زمانے میں نقوش کے مدیر محمد طفیل نے ان سے ملاقات کی تھی اور پھر ان پر ایک یادگار خاکہ بھی لکھا۔
 

فاتح

لائبریرین
اس قدر تفصیلی تعارف پر بے حد شکریہ وارث صاحب!
کیا آپ کے پاس "فنون" کا "یاس یگانہ چنگیزی نمبر" موجود ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
اس قدر تفصیلی تعارف پر بے حد شکریہ وارث صاحب!
کیا آپ کے پاس "فنون" کا "یاس یگانہ چنگیزی نمبر" موجود ہے؟

شکریہ فاتح صاحب۔

افسوس کہ فنون کا مذکورہ شمارہ میرے پاس نہیں ہے بلکہ فنون کے چند ایک شمارے ہی میرے پاس ہیں، نقوش کے کئی ہیں :)
 
Top