غزل : عشق کو آگ کا دریا میں لکھوں کیسے لکھوں ۔ از : فاروق درویش

غزل​
عشق کو آگ کا دریا میں لکھوں کیسے لکھوں​
حسن کو چاند سا چہرہ میں لکھوں کیسے لکھوں​
کیا سفر نامہ ء صحرائے محبت میں لکھوں​
دشتِ آشوب میں جلنا میں لکھوں کیسے لکھوں​
ڈوب کر کیا کوئی اُبھرا ہے سفینہ دل کا​
بحر ِ کلفت سے اُبھرنا میں لکھوں کیسے لکھوں​
حسن ِ یوسف کی تو عاشق ہے خدائی ساری​
اک زلیخا کا ہی قصہ میں لکھوں کیسے لکھوں​
شب سے پہلے ہی یہ دل چاند سا چہرہ مانگے​
دل ِ نادان ہے پگلا میں لکھوں کیسے لکھوں​
آنکھ کھل جائے تو تنہائی سے خوف آتا ہے​
ہجر ِ مژگاں میں سلگلنا میں لکھوں کیسے لکھوں​
کیوں محبت کی نشانی کو لکھوں تاج محل​
عشق کی قید کا نوحہ میں لکھوں کیسے لکھوں​
قتل ہوتے ہیں زمانے میں سویے حشررقیب​
میرا قاتل ہے مسیحا میں لکھوں کیسے لکھوں​
سنگ برسے تو مرے دوست تماشائی تھے​
سنگ دل شہر تھا سارا میں لکھوں کیسے لکھوں​
سوئے محشر نہ قلم ہے نہ سیاہی نہ دوات​
مرگِ درویش کا قصّہ میں لکھوں کیسے لکھوں​
فاروق درویش​
 

مغزل

محفلین
سبحان اللہ سبحان اللہ ، کیا عمدہ غزل شامل کی ہے سارا بہن سلامت رہیں ، فاروق صاحب ماشا اللہ خاصے منجھے ہوئے شاعر ہیں ، کسی ایک شعر پر داد دینا باقی اشعار کی حق تلفی ہوتی ہے ۔ یہ شعر مجھے قراءت کا حاصل لگا کہ شاید میں بھی داخلی اعتبار سے اسی کیفیت سے دوچار ہوں ۔ ہجر دوری فراق کیا کیا عذاب ملتے ہیں ۔۔ ایک عشق میں ۔۔ واقعی ’’ آنکھ کھل جائے تو تنہائی سے خوف آتا ہے ‘‘۔۔۔ لیکن یہ تنہائی تنہائی ہی تو نہیں ہوتی یہی تو پوری خلوت پوری جلوت ہے ۔۔ میری جانب سے اس بھرپورغزل پر اپنے استادِ مکرم قبلہ فاروق صاحب کا شکریہ ادا کیجے گا اور ہدیہ تحسین و تبریک پیش کیجے گا۔ سلامت رہیں آباد رہیں کامران رہیں ۔ یہ سعادت مندیاں آپ کو مزید ترقی عطافرمائے ، آمین ثم آمین
آنکھ کھل جائے تو تنہائی سے خوف آتا ہے​
ہجر ِ مژگاں میں سلگلنا میں لکھوں کیسے لکھوں​
 
Top