غزل - ضبط کرتے رہیں حالِ دلِ مضطر نہ کہیں-مرتضیٰ برلاس

غزل

ضبط کرتے رہیں حالِ دلِ مضطر نہ کہیں
یہ بھی ہے پاسِ وفا ، تجھ کو ستمگر نہ کہیں

ہم جو کہتے ہیں نشے میں ، ہمیں کہہ لینے دو
عین ممکن ہے کہ پھر ہوش میں آ کر نہ کہیں

بات اتنی ہے کہ ہم اذنِ تکلم چاہیں
آپ کے حلقہ نشیں بات بڑھا کر نہ کہیں

گونج اپنی سہی ، تائید میں آواز تو ہے
کیوں ترے شہر سے ہم دشت کو بہتر نہ کہیں

میرے احباب کا ، اس دور میں معیار ہے یہ
پیٹھ پیچھے جو کہیں ، وہ مرے منہ پر نہ کہیں

ذات کے خول میں ہر شخص مقید ہے یہاں
کیا کہیں اس کو اگر عرصہء محشر نہ کہیں

گرد اتنہ ہے کہ پہچان نہ پائیں خود کو
جبر ہے، پھر بھی فضاؤں کو مکدر نہ کہیں

یوں تو اظہارِ غمِ دل کی اجازت ہے ہمیں
شرط یہ بھی ہے کہ پتھر کو بھی پتھر نہ کہیں

ہم ہیں فنکار ، مقابر کے مورخ تو نہیں
ہم جو محسوس کریں دل میں، وہ کیونکر نہ کہیں

مرتضیٰ برلاس​
 

الف عین

لائبریرین
شرط یہ ہے کہ پتھر کو بھی پتھر نہ کہیں
شاید یوں ہوگا
شرط یہ ہے کسی پتھر کو بھی پتھر نہ کہیں
 
شرط یہ ہے کہ پتھر کو بھی پتھر نہ کہیں
شاید یوں ہوگا
شرط یہ ہے کسی پتھر کو بھی پتھر نہ کہیں

بجا فرمایا استادِ گرامی آپ نے شعر میں ایک لفظ رہ گیا تھا ابھی درست کر دیا ہے اور یہ شعر اس طرح ہے ۔

یوں تو اظہارِ غم غمِ دل کی اجازت ہے ہمیں
شرط یہ بھی ہے کہ پتھر کو بھی پتھر نہ کہیں
 

الف عین

لائبریرین
اور اس بار بھی کاپی پیسٹ ہونے میں ’غم‘ دو بار ہو گیا
یوں تو اظہارِ غم غمِ دل کی اجازت ہے ہمیں
درست یوں ہونا چاہئے۔
یوں تو اظہارِ غمِ دل کی اجازت ہے ہمیں
 

شیزان

لائبریرین
میرے احباب کا ، اس دور میں معیار ہے یہ
پیٹھ پیچھے جو کہیں ، وہ مرے منہ پر نہ کہیں

کڑوا سچ ہے
عمدہ انتخاب​
 

طارق شاہ

محفلین

ضبط کرتے رہیں حالِ دلِ مضطر نہ کہیں

غزل
ضبط کرتے رہیں، حالِ دلِ مُضطر نہ کہیں
یہ بھی ہے پاسِ وفا ، تجھ کو سِتمگر نہ کہیں

ہم جو کہتے ہیں نشے میں ، ہَمَیں کہہ لینے دو !
عین مُمکن ہے کہ پھر ہوش میں آ کر نہ کہیں

بات اِتنی ہے کہ ہم اذنِ تکلّم چاہیں !
آپ کے حلقہ نشِیں، بات بڑھا کر نہ کہیں

گونج اپنی سہی ، تائید میں آواز تو ہے !
کیوں تِرے شہر سے ہم دشت کو بہتر نہ کہیں

میرے احباب کا اِس دَور میں معیار ہے یہ
پِیٹھ پیچھے جو کہَیں ، وہ مِرے مُنہ پر نہ کہَیں

ذات کے خَول میں ہر شخص مُقیّد ہے یہاں
کیا کہیں اِس کو، اگر عرصۂ محشر نہ کہیں

گرد اِتنا ہے کہ پہچان نہ پائیں خود کو !
جبر ہے، پھر بھی فِضاؤں کو مکدّر نہ کہیں

یوں تو اِظہارِ غَمِ دِل کی اِجازت ہے ہَمَیں
شرط یہ بھی ہے، کہ پتّھر کو بھی پتّھر نہ کہیں

ہم ہیں فنکار، مقابر کے مؤرخ تو نہیں !
ہم جو محسُوس کریں دِل میں، وہ کیونکر نہ کہیں

مُرتضٰی برلاس
 
Top