غزل: شہر دل دشت ہوا ہے تو ہوا رہنے دو

شہر دل دشت ہوا ہے تو ہوا رہنے دو
میری آنکھوں میں مگر اس کو بسا رہنے دو

کچھ عطا کی ہے تمنا نہ جزا کی خواہش
جرم الفت کی میرے حق میں سزا رہنے دو

میں پس ترک تعلق بھی ہوں شیدا اس کا
وہ اگر اب بھی ہے مصروف جفا رہنے دو

میرے حق میں نہ کوئی چارہ کرو، چارہ گرو
جس کا بیمار ہوں اس در بہ پڑا رہنے دو

اس کی نظروں سے جو ہو جائے میسر، پی لوں
ورنہ پیمانے سے کیا ہوگا بھلا رہنے دو

میرے قاتل کا پتہ تم کو نہ دے گا کوئی
میرے سر پر ہی یہ الزام دھرا رہنے دو

اس کی محفل جو میسر نہیں مجھ کو نہ سہی
میرے خوابوں میں اسے جلوہ نما رہنے دو

ہے نگاہ غلط انداز کا طالب شاکر
میرے لقماں سے کہو... دارو دوا رہنے دو
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ! اچھے اشعار ہیں شاکر صاحب!
بزمِ سخن میں خوش آمدید! امید ہے آپ مزید کلام سے بھی نوازتے رہیں گے ۔

مقطع مین آپ نے دوا دارو کو دارو دوا کردیا جو بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا ۔ محاورے میں اس طرح کا ردو بدل درست نہیں ۔ چوتھے شعر میں ٹائپو بھی درست کرلیجئے ۔
 
Top