غزل: سمجھتے ہیں مگر سمجھائیں یہ اسرار کیسے ٭ جلیل عالیؔ

سمجھتے ہیں مگر سمجھائیں یہ اسرار کیسے
کہ اپنے راستے ہونے لگے ہموار کیسے

جہاں مضبوط بیڑے بھی نہ بچ پائیں بھنور سے
شکستہ ناؤ کر جاتی ہے دریا پار کیسے

خبر کس کو کرشمہ ہے دوا کا یا دعا کا
دنوں میں دُور اپنے ہو گئے آزار کیسے

کبھی سرگوشیاں اندر کی سن پائیں تو جانیں
کہ آنکھیں دیکھ سکتی ہیں پسِ دیوار کیسے

وہ جو کل تک خدا خود کو سمجھتا تھا زمین پر
اسے دیکھو زمانے نے کیا لاچار کیسے

کہانی کار خود حیرت میں ڈوبا سوچتا ہے
کہانی میں ہوئے شامل نئے کردار کیسے

ہمیں اپنے ہی شہ نے دان کر ڈالا عدو کو
بتائیں کیا کہ ہاتھوں سے چِھنی تلوار کیسے

بڑھایا فاصلہ انساں نے فطرت سے تو دیکھا
ہوا ہے خود بھی اپنے آپ سے بیزار کیسے

کبھی اک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے عالیؔ
ہوا دشمن وہ میری جاں کا آخر کار کیسے

٭٭٭
جلیل عالیؔ
 
Top