ماہر القادری غزل: سفینہ میرا ساحل آشنا معلوم ہوتا ہے

سفینہ میرا ساحل آشنا معلوم ہوتا ہے
مجھے یہ بھی فریبِ ناخدا معلوم ہوتا ہے

ترے غم کا جہاں تک سلسلہ معلوم ہوتا ہے
وہیں تک میری ہستی کا پتا معلوم ہوتا ہے

نہ پوچھ اے دوست! شامِ غم میں کیا معلوم ہوتا ہے
مجھے ہر دم قضا کا سامنا معلوم ہوتا ہے

بہ ہر لحظہ، بہ ہر ساعت سِوا معلوم ہوتا ہے
تمہارا غم طبیعت آشنا معلوم ہوتا ہے

نفس کی آمد و شد سے پتا معلوم ہوتا ہے
کہ اس پردے میں کوئی دوسرا معلوم ہوتا ہے

امیدیں ٹوٹتی ہیں، ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں بھی
دلِ بیتاب کو آرام سا معلوم ہوتا ہے

اسی کے دم سے ہے کونین کی ہنگامہ آرائی
بظاہر عشق بے برگ و نوا معلوم ہوتا ہے

تری شبنم فشاں آنکھوں کا آنسو تیرے دامن پر
ستاره عرش سے ٹوٹا ہوا معلوم ہوتا ہے

اسے میرا سکونِ دل گوارا کس طرح ہو گا
جسے میرا تڑپنا بھی برا معلوم ہوتا ہے

حقیقت یہ ہے ماہرؔ سخت کافر رندِ مشرب ہے
مگر وہ دیکھنے میں پارسا معلوم ہوتا ہے

٭٭٭
ماہر القادریؒ
 
Top