غزل : رحم ہم پر شتاب کر دیجے

رحم ہم پر شتاب کر دیجے
اپنے رخ پر نقاب کر دیجے

مکت کر دیجئے غمِ جاں سے
آج میرا حساب کر دیجے

نیند لے لیجئے مری صاحب
میرے حصے میں خواب کر دیجے

سارے شکوے تمام تعزیریں
بس مجھے انتساب کر دیجے

شمع امید کیجئے روشن
بند ظلمت کا باب کر دیجے

اپنی محفل کی ایک شام کبھی
پھر مجھے دستیاب کر دیجے

شہرِ یاراں ابھی بھی زندہ ہے
اس میں جینا عذاب کر دیجے

ڈالئے اک نظر شکیل پہ ، اور
بس اسے لاجواب کر دیجے

محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
و دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
 
Top