غزل: رب سے ملتی ہیں اُن کی یہ عادات

وجاہت حسین

محفلین
غزل
رب سے ملتی ہیں ان کی یہ عادات
آزماتے ہیں صبر کو دن رات

عشق سے عاری پنجگانہ صلوۃ
ہبل و بعل و نسر و لات و منات
(یہ پانچ کفار کے بتوں کے نام ہیں)

عشقِ احمد ﷺ نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہو اگرچہ تُو حافظِ مشکوۃ
(مشکوۃ حدیث کی مشہور کتاب کا نام ہے)

تیرا کعبہ ہے ایک آیت اگر
تین سو ساٹھ میری تاویلات

کنگھی اُن کی مفسرِ اعظم
نامِ خَم پر نکالتی ہے نِکات

جام دونوں پڑے تھے دوش بدوش
خضر مے پی گیا، میں آبِ حیات

رزم گاہِ وجود میں حافظؔ
کر دو جاں کو شہیدِ نفی اثبات​
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاءاللہ
نسر و لات و منات
یہاں نسر کے تلفظ اور واو عطف کے تلفظ کی غلطی لگتی ہے وَ لات غلط ہے
 

وجاہت حسین

محفلین
اچھی غزل ہے ماشاءاللہ
بہت نوازش۔ بہت شکریہ سر۔

نسر و لات و منات
یہاں نسر کے تلفظ اور واو عطف کے تلفظ کی غلطی لگتی ہے وَ لات غلط ہے
قبلہ میں نے یہ لفظ ’’نسر‘‘ سورۃ نوح آیت نمبر 23 سے لیا ہے جو کہ فاع کے وزن پر ہے۔
وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا
عربی لغات میں بھی اسے فاع کے وزن پر ہی بیان کیا گیا ہے۔ اور علامہ فیروز آبادی نے بصائر ذوي التمييز في لطائف الكتاب العزيز میں اس لفظ کی تقطیع و معانی کی خاطر ایک شعر بھی پیش کیا ہے جو بحرِ طویل پر ہے (افاعیل: فعولن مفاعیلن فعولن مفاعیلن)

أَما ودِماءٍ ما ثرات تَخالُها ... على قُنَّة العُزَّى وبالنَّسْر عَنْدَما

میں آپ کی نظرِ کرم کا بے حد مشکور ہوں۔ پس اگر میں خطا پر ہوں تو از رہِ کرم مجھے مطلع فرما دیں تاکہ میں اس کی اصلاح کر سکوں۔
 

وجاہت حسین

محفلین
بس کچھ ہضم نہیں ہو رہا ذہنی طور پر۔۔۔رب کی عادات سے کسی عام بندے بشر کی عادات سے مماثلت کا ذکر۔۔۔چہ معنی دارد۔۔

جی جناب۔ میں آپ کی بات کو سمجھتا ہوں۔ البتہ اس پر میرا نظریہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے کئی مقامات پر قرآن مجید میں مجازاً افعالِ بشر کے ساتھ مماثلت بیان فرمائی ہے۔ جیسے
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ (الانفال 17)
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح 10)

نہ صرف یہ بلکہ اپنے اسماء میں سے بعض تو خود نبی ﷺ کے لیے بھی بیان فرما دیے ہیں۔
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (التوبہ 12)

پھر لفظ ’’رب‘‘ اللہ پاک نے ماں باپ کے لیے بھی استعمال فرمایا ہے کہ وہ بچے کو پالتے ہیں۔
وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (الاسرا 24)

پھر اسی طرح سے ایک مشہور حدیث کے الفاظ ہیں
خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ
(اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر تخلیق فرمایا)

صوفیاء اکرام کے ہاں ایک مشہور مقولہ ہے کہ تخلقوا بأخلاق الله (اللہ کا اخلاق اختیار کرو)۔
جاوید نامہ میں علامہ اقبال حلاج کی زبان سے اس سوال کے جواب میں کہ خدا کا دیدار کیا ہے کہتے ہیں کہ
نقش حق اول بجان انداختن
باز او را در جهان انداختن
(حق کے نقش کو اپنی جان میں ڈالنا، پھر اس کو سارے جہان میں ڈالنا۔ یعنی طالبِ دیدار حق اپنے اندر پہلے حق کی صفات پیدا کرے۔۔۔)
اور رموزِ بیخودی میں تفسیرِ سورۃ اخلاص کے تحت بھی علامہ مسلمان کو اللہ کی ان صفات کا مظہر بننے کی تلقین فرماتے ہیں جو اللہ پاک نے اس سورہِ مبارکہ میں بیان فرمائی ہیں۔

ان سب سے ہرگز مراد یہ نہیں کہ انسان خدا بن جاتا ہے یا پھر کاملتاً اس کی صفات کا حامل ہو جاتا ہے۔ البتہ اس کی صفات کا مظہر ضرور ہو جاتا ہے۔
اسی طرح صبر آزمانے کی جو مناسبت شعر میں بیان کی ہے وہ بھی خالصتاً مجاز ہے۔ واللہ ورسولہ اعلم۔
 

اکمل زیدی

محفلین
جی وجاہت صاحب بہتر درج بالا نکات قابل قدر ہیں مگر اگر ہمارے پاس آپشن ہو تو کیوں نہ اسے استعمال کیا جائے۔۔۔
 
Top