نظر لکھنوی غزل: دل کو چھوڑا مجھ کو الزامِ خطا دینے لگے ٭ نظرؔ لکھنوی

دل کو چھوڑا مجھ کو الزامِ خطا دینے لگے
وہ تو ملزم ہی کے حق میں فیصلا دینے لگے

جب وہ سائل کو بنامِ مصطفیٰ دینے لگے
تھی طلب جتنی اسے اس سے سوا دینے لگے

دل سی شے لے کر ہمیں داغِ جفا دینے لگے
کچھ نہ سوچا کیا لیا تھا اور کیا دینے لگے

آخری لو پر تھا جب میرا چراغِ زندگی
غم کی گھبراہٹ میں سب منہ کی ہوا دینے لگے

اپنے ملنے کو کہا میری رگِ جاں کے قریب
اللہ اللہ کس قیامت کا پتہ دینے لگے

چند آنسو آ گئے تھے آنکھ میں چرچے ہیں سو
لوگ اتنی بات کو کتنی ہوا دینے لگے

ظلمتِ دل کو ہماری پوچھتے کیا ہو نظرؔ
گیسووں والے کا اب ہم واسطا دینے لگے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top