ماہر القادری غزل: خوفِ غم آرزوئے راحت ہے

خوفِ غم آرزوئے راحت ہے
یہ محبت نہیں تجارت ہے

آرزوؤں کی اتنی کثرت ہے
زندگی کیا ہے اک مصیبت ہے

حسن کو عشق کی ضرورت ہے
یہ فسانہ نہیں حقیقت ہے

تیرے ہوتے ہوئے غمِ جاناں
اور کس چیز کی ضرورت ہے

کیا خوشی اس کو راس آئے گی
دل تو پروردۂ مصیبت ہے

دل پہ کیا کیا گزر گئی مت پوچھ
جی رہا ہوں یہی غنیمت ہے

ہر نفس میں ہے یادِ دوست کا رنگ
یہ تو دوری نہیں ہے قربت ہے

ہوشیار اے نگاہِ سادہ مزاج!
اس کا جلوه طلسمِ حیرت ہے

آپ کا حکم ہو تو عرض کروں
کیا مجھے آہ کی اجازت ہے

اس نے غم دے کے مجھ سے فرمایا
یہ مری آخری عنایت ہے

ہم وطن کو بھی جا کے دیکھ آئے
وہی رنگِ سوادِ غربت ہے

کاش! ناصح کو بھی خبر ہوتی
عشق تو آدمی کی فطرت ہے

تیرے شعروں میں یہ اثر! ماہرؔ
ان نگاہوں کا فیضِ صحبت ہے

٭٭٭
ماہرؔ القادریؒ
 
Top