غزل: خواب دیکھا نہیں، تعبیر کہاں سے آئی ٭ ڈاکٹر انور سدید

خواب دیکھا نہیں، تعبیر کہاں سے آئی؟
آنکھ میں پھر تِری تصویر کہاں سے آئی؟

شہر ڈوبا ہوا تھا، گہرے اندھیرے میں مگر
حجرۂ دل میں یہ تنویر کہاں سے آئی؟

جو تہی دست تھا کل، آج ہے زر دار وہی
اُس کے قبضے میں یہ جاگیر کہاں سے آئی؟

پُشت سے ہٹ گیا جو دستِ نگاریں اُن کا
میرے اسلوب میں تاثیر کہاں سے آئی؟

میں نے تو خواب بہاروں کا نہیں دیکھا ہے
ہاتھ میں پھر مرے زنجیر کہاں سے آئی؟

نقش یادوں کے تو سب مٹ بھی چکے تھے انورؔ
دل کے صحرا میں یہ تصویر کہاں سے آئی؟

٭٭٭
ڈاکٹر انور سدید
 
آخری تدوین:
Top