نظر لکھنوی غزل: خالی اس آستاں سے نہ دریوزہ گر پھرے ٭ نظرؔ لکھنوی

خالی اس آستاں سے نہ دریوزہ گر پھرے
ایماں کا لے کے دامنِ دل میں گہر پھرے

پیغامِ لا الٰہ لیے ہم جدھر پھرے
ان بستیوں کے شام و سحر سر بسر پھرے

تقدیرِ سیم و زر ہے یہی در بدر پھرے
پیچھے لگیں جو ان کے وہ ناداں وہ سر پھرے

ناحق یہاں ستائے گئے اہلِ حق بہت
مؤقف سے اپنے وہ نہ سرِ مو مگر پھرے

مہتاب و آفتاب ہیں کس کی تلاش میں
سرگرداں ایک دن میں ہے اک رات بھر پھرے

محرومیاں نصیب مرا اب تو بن گئیں
میری ہی ٹھوکروں میں کبھی تاجِ زر پھرے

تدبیر کام آئے نہ کام آئے کچھ خرد
کچھ بھی نہ کام آئے مقدر اگر پھرے

اف دردِ جاں گداز کا چارہ نہ ہو سکا
نومید ہو کے مجھ سے مرے چارہ گر پھرے

دل کھو نہ جائے حسن کی رنگینیوں میں یہ
اس ڈر سے عمر بھر کیے نیچی نظرؔ پھرے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top