غزل: حسن ایسا تھا کہ ہر اک آئنہ کم پڑ گیا ٭ شاہنواز فاروقی

حسن ایسا تھا کہ ہر اک آئنہ کم پڑ گیا
آئینہ کیا، عمر بھر کا دیکھنا کم پڑ گیا

آنکھ سے کیا، میں تو اپنے دل سے باہر ہو گیا
رقص ہی ایسا تھا ہر اک دائرہ کم پڑ گیا

ان کہی باتوں سے ہی دل کے جہاں آباد ہیں
ورنہ اکثر آدمی نے جو کہا کم پڑ گیا

کتنی باتیں ہیں کہ جن کو سوچنا ممکن نہیں
اور اگر سوچا کبھی تو سوچنا کم پڑ گیا

دل دھڑکنے کی صدا میں اس قدر اسرار ہیں
گفتگو کیا خامشی کا سلسلہ کم پڑ گیا

درد تھا، ہیجان تھا، پر آنکھ میں آنسو نہ تھے
جیسے دل تک آتے آتے حادثہ کم پڑ گیا

دل پہ ظاہر ہونے والا آنکھ پر ظاہر نہیں
آرزو سے جستجو تک جانے کیا کم پڑ گیا

حادثہ مامور ہو گا اب مری تعلیم پر
میری فطرت کے لیے ہر واقعہ کم پڑ گیا

اک زمانہ وہ کہ تھی دل کی گواہی بھی بہت
اک زمانہ یہ کہ جس میں معجزہ کم پڑ گیا

خیر کی میراث نے پوچھا قیامت سے سوال
ابتدا سے انتہا تک جو ہوا کم پڑ گیا؟

٭٭٭
شاہنواز فاروقی
 
Top