داغ غزل: جس دم رقیب کہنے کو آتے ہیں جھوٹ سچ

جس دم رقیب کہنے کو آتے ہیں جھوٹ سچ
ان کو مری طرف سے لگاتے ہیں جھوٹ سچ

قاصد کے کچھ کلام غلط ہیں تو کچھ صحیح
ہم کو الگ الگ نظر آتے ہیں جھوٹ سچ

اول ہی سے ہے ان کا خوشامد طلب مزاج
پھر ہاں میں ہاں ندیم ملاتے ہیں جھوٹ سچ

دیکھیں تو ہم بھی اس بتِ پُر فن کی بات چیت
کیونکر بتانے والے بتاتے ہیں جھوٹ سچ

آتا ہے داستانِ محبت میں ان کو لطف
بے پرکی ہم بھی روز اُڑاتے ہیں جھوٹ سچ

یہ جانتے ہیں جان تو جائے گی ایک دن
ناصح کے ڈر سے خیر مناتے ہیں جھوٹ سچ

وعدہ وفا کریں نہ کریں، آئیں یا نہ آئیں
گھبرا کے کچھ وہ بول تو جاتے ہیں جھوٹ سچ

ہم ناصحِ شفیق کے شاگرد ہوگئے
ہر روز کا سبق وہ پڑھا تے ہیں جھوٹ سچ

انصاف یہ کہ ان کے سوالوں کا کیا جواب
باتیں اگرچہ ہم بھی بناتے ہیں جھوٹ سچ

جوہر اس آئینے کے ہوئے خوب آشکار
دل میں تمہارے سب نظر آتے ہیں جھوٹ سچ

اس نکتہ چیں سے داغؔ یہ تقریر پیچ دار
آگے تمہارے سب ابھی آتے ہیں جھوٹ سچ

٭٭٭
داغؔ دہلوی
 
Top