عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
آج بَیاض میں ایک پرانی غزل نگاہ سے گزری . سوچا آپ كے اعلیٰ ذوق کی نذر کروں . شاید کسی قابل ہو .
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
آج بَیاض میں ایک پرانی غزل نگاہ سے گزری . سوچا آپ كے اعلیٰ ذوق کی نذر کروں . شاید کسی قابل ہو .
جاہل سے قیادت کی امید نہیں کرتے
ہَم آج كےميروں کی تقلید نہیں کرتے
حق بات کہے وہ تو لبیک کہو لیکن
ہر نعرۂ قائد کی تائید نہیں کرتے
تنقیص و تعرّض كے پیمانے بناؤ کچھ
بےوجہ کسی شئے کی تردید نہیں کرتے
دنیا کو تو ٹوکا ہے سو بار خطاؤں پر
ہَم خود کو کبھی لیکن تاکید نہیں کرتے
مصروف زمانہ ہے، سو کہتے ہیں مطلب کی
ہَم بات میں تکلیفِ تمہید نہیں کرتے
بھولے سے کہیں ہَم کو دشمن نہ سمجھ بیٹھیں
یاروں پہ ہَم اِس ڈر سے تنقید نہیں کرتے
ہر دور كے رنگوں میں ڈھالا ہے طبیعت کو
یہ کس نے کہا ہے ہَم تجدید نہیں کرتے؟
ہَم سائے پریشاں ہوں تو کیسی خوشی عابؔد
جب شہر میں ماتم ہو، ہَم عید نہیں کرتے
ہَم آج كےميروں کی تقلید نہیں کرتے
حق بات کہے وہ تو لبیک کہو لیکن
ہر نعرۂ قائد کی تائید نہیں کرتے
تنقیص و تعرّض كے پیمانے بناؤ کچھ
بےوجہ کسی شئے کی تردید نہیں کرتے
دنیا کو تو ٹوکا ہے سو بار خطاؤں پر
ہَم خود کو کبھی لیکن تاکید نہیں کرتے
مصروف زمانہ ہے، سو کہتے ہیں مطلب کی
ہَم بات میں تکلیفِ تمہید نہیں کرتے
بھولے سے کہیں ہَم کو دشمن نہ سمجھ بیٹھیں
یاروں پہ ہَم اِس ڈر سے تنقید نہیں کرتے
ہر دور كے رنگوں میں ڈھالا ہے طبیعت کو
یہ کس نے کہا ہے ہَم تجدید نہیں کرتے؟
ہَم سائے پریشاں ہوں تو کیسی خوشی عابؔد
جب شہر میں ماتم ہو، ہَم عید نہیں کرتے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
آخری تدوین: