غزل: جاہل سے قیادت کی امید نہیں کرتے

احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
آج بَیاض میں ایک پرانی غزل نگاہ سے گزری . سوچا آپ كے اعلیٰ ذوق کی نذر کروں . شاید کسی قابل ہو .

جاہل سے قیادت کی امید نہیں کرتے
ہَم آج كےميروں کی تقلید نہیں کرتے

حق بات کہے وہ تو لبیک کہو لیکن
ہر نعرۂ قائد کی تائید نہیں کرتے

تنقیص و تعرّض كے پیمانے بناؤ کچھ
بےوجہ کسی شئے کی تردید نہیں کرتے

دنیا کو تو ٹوکا ہے سو بار خطاؤں پر
ہَم خود کو کبھی لیکن تاکید نہیں کرتے

مصروف زمانہ ہے، سو کہتے ہیں مطلب کی
ہَم بات میں تکلیفِ تمہید نہیں کرتے

بھولے سے کہیں ہَم کو دشمن نہ سمجھ بیٹھیں
یاروں پہ ہَم اِس ڈر سے تنقید نہیں کرتے

ہر دور كے رنگوں میں ڈھالا ہے طبیعت کو
یہ کس نے کہا ہے ہَم تجدید نہیں کرتے؟

ہَم سائے پریشاں ہوں تو کیسی خوشی عابؔد
جب شہر میں ماتم ہو، ہَم عید نہیں کرتے​

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
بھولے سے کہیں ہَم کو دشمن نہ سمجھ بیٹھیں
یاروں پہ ہَم اِس ڈر سے تنقید نہیں کرتے

ہَم سائے پریشاں ہوں تو کیسی خوشی عابؔد
جب شہر میں ماتم ہو، ہَم عید نہیں کرتے
تنقیص و تعرّض كے پیمانے بناؤ کچھ
بےوجہ کسی شئے کی تردید نہیں کرتے
ماشاء اللہ علوی صاحب اچھی غزل ہے۔ یہ اشعار دل کو بھائے۔جزاک اللہ خیر
 
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
آج بَیاض میں ایک پرانی غزل نگاہ سے گزری . سوچا آپ كے اعلیٰ ذوق کی نذر کروں . شاید کسی قابل ہو .

جاہل سے قیادت کی امید نہیں کرتے
ہَم آج كےميروں کی تقلید نہیں کرتے

حق بات کہے وہ تو لبیک کہو لیکن
ہر نعرۂ قائد کی تائید نہیں کرتے

تنقیص و تعرّض كے پیمانے بناؤ کچھ
بےوجہ کسی شئے کی تردید نہیں کرتے

دنیا کو تو ٹوکا ہے سو بار خطاؤں پر
ہَم خود کو کبھی لیکن تاکید نہیں کرتے

مصروف زمانہ ہے، سو کہتے ہیں مطلب کی
ہَم بات میں تکلیفِ تمہید نہیں کرتے

بھولے سے کہیں ہَم کو دشمن نہ سمجھ بیٹھیں
یاروں پہ ہَم اِس ڈر سے تنقید نہیں کرتے

ہر دور كے رنگوں میں ڈھالا ہے طبیعت کو
یہ کس نے کہا ہے ہَم تجدید نہیں کرتے؟

ہَم سائے پریشاں ہوں تو کیسی خوشی عابؔد
جب شہر میں ماتم ہو، ہَم عید نہیں کرتے​

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
واہ ! کیا خوب !
 
ماشااللہ!
بہت خوب! تمام اشعار بہت اعلٰی۔
سر! پوری غزل آپ نے بولڈ لہجے میں کہی ہے۔ یہ شعر ویسے بہت اچھا ہے لیکن اس بولڈنیس سے ہٹ کے ہے (یہ تنقید نہیں تجزیہ ہے) :)
بھولے سے کہیں ہَم کو دشمن نہ سمجھ بیٹھیں
یاروں پہ ہَم اِس ڈر سے تنقید نہیں کرتے​
 
ماشااللہ!
بہت خوب! تمام اشعار بہت اعلٰی۔
سر! پوری غزل آپ نے بولڈ لہجے میں کہی ہے۔ یہ شعر ویسے بہت اچھا ہے لیکن اس بولڈنیس سے ہٹ کے ہے (یہ تنقید نہیں تجزیہ ہے) :)
بھولے سے کہیں ہَم کو دشمن نہ سمجھ بیٹھیں
یاروں پہ ہَم اِس ڈر سے تنقید نہیں کرتے​
خورشید صاحب ، ستائش كے لیے متشکر ہوں . جزاک اللہ . بھائی ، آپ تنقید بھی کرینگے تو خاکسار کو کوئی شکایت نہ ہوگی انشاءاللہ . :) آپ کا تجزیہ دلچسپ ہے لہٰذا اِس پر چند باتیں عرض ہیں . آپ کو تو علم ہو گا ہی کہ غزل کا ہر شعر اپنے آپ میں ایک مکمل بیان ہوتا ہے . اگر غزل مسلسل نہ ہو تو اس كے اشعار كے موڈ کا مختلف ہونا عام ہے . ہاں ، اگر غزل ایک ہی نشست میں کہی گئی ہو تو مسلسل نہ ہوتے ہوئے بھی اس كے اشعار کا موڈ ایک جیسا ہوسکتا ہے . اور میرے ساتھ واقعہ یہ ہے میری ناچیز غزلیات کی تکمیل ایک نشست میں شاذ و نادر ہی ہوتی ہے . ویسے چلتے چلتے یہ بھی عرض ہے کہ یاروں پر طنز كے لیے بھی خاصی بولڈنیس چاہیے . غرض یہ کہ مذکورہ شعر ایسا مجبور بھی نہیں جیسا آپ کو نظر آ رہا ہے . :)
 
خورشید صاحب ، ستائش كے لیے متشکر ہوں . جزاک اللہ . بھائی ، آپ تنقید بھی کرینگے تو خاکسار کو کوئی شکایت نہ ہوگی انشاءاللہ . :) آپ کا تجزیہ دلچسپ ہے لہٰذا اِس پر چند باتیں عرض ہیں . آپ کو تو علم ہو گا ہی کہ غزل کا ہر شعر اپنے آپ میں ایک مکمل بیان ہوتا ہے . اگر غزل مسلسل نہ ہو تو اس كے اشعار كے موڈ کا مختلف ہونا عام ہے . ہاں ، اگر غزل ایک ہی نشست میں کہی گئی ہو تو مسلسل نہ ہوتے ہوئے بھی اس كے اشعار کا موڈ ایک جیسا ہوسکتا ہے . اور میرے ساتھ واقعہ یہ ہے میری ناچیز غزلیات کی تکمیل ایک نشست میں شاذ و نادر ہی ہوتی ہے . ویسے چلتے چلتے یہ بھی عرض ہے کہ یاروں پر طنز كے لیے بھی خاصی بولڈنیس چاہیے . غرض یہ کہ مذکورہ شعر ایسا مجبور بھی نہیں جیسا آپ کو نظر آ رہا ہے . :)
سر! آپکی محبت کا شکریہ۔
 
Top