محسن نقوی غزل-تری آنکھ کو آزمانا پڑا -محسن نقوی

غزل

تری آنکھ کو آزمانا پڑا
مجھے قصہء غم سنانا پڑا

غمِ زندگی تیری خاطر ہمیں
سرِ دار بھی مسکرانا پڑا

حوادث کی شب اتنی تاریک تھی
جوانی کو ساغر اٹھانا پڑا

مرے دشمنِ جاں، ترے واسطے
کئی دوستوں کو بھلانا پڑا

زمانے کی رفتار کو دیکھ کر
قیامت پہ ایمان لانا پڑا

جنہیں دیکھنا بھی نہ چاہے نظر
انہیں سے تعلق بڑھانا پڑا

کئی سانپ تھے قیمتی اس قدر
انہیں آستیں میں چھپانا پڑا

ہواؤں کے تیور جو برہم ہوئے
چراغون کو خود جھلملانا پڑا

محسن نقوی​
 
؟؟؟؟
یہ تو پیاسا صحرا کی پوسٹنگ ہے۔
شکریہ صحرا شئر کرنے کا۔

السلام علیکم!
استادِ محترم کبھی کبھی انسان سے بھول چوک بھی ہو جاتی ہے ۔ شاہ جی سے بھی ایسے ہی ایک غلطی ہو گئی ہے ۔
بہت بہت شکریہ استادِ محترم ۔
 
بہت بہت شکریہ وارث صاحب ۔ ویسے آپ بھی ہمارے اساتذہ میں ہی شمار ہوتے ہیں ۔ اس لیے آپ کا بھی استادِ محترم بہت بہت شکریہ ۔ کہ آپ سے اور دوسرے ساتھیوں سے ادھر بہت کچھ سیکھا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ارے کہاں کے استاد، محترم طفلِ مکتب اپنے ٹھنڈے فرش پر ہی اچھے لگتے، کرسیاں اساتذہ کیلیے ہیں اور وہی ان پر جچتے ہیں جیسے اعجاز صاحب :)
 
Top