نظر لکھنوی غزل: بے سبب کب کسی سے ملتا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

بے سبب کب کسی سے ملتا ہے
خود غرض کام ہی سے ملتا ہے

دردِ سر ، سر بسر ہے آقائی
کیفِ دل بندگی سے ملتا ہے

دین و دنیا میں ہر بلند مقام
بس تری پیروی سے ملتا ہے

سلسلہ ظاہری ہے یہ جتنا
پردۂ غیب ہی سے ملتا ہے

دل کو کیفِ تمام و سوزِ مدام
جذبۂ عاشقی سے ملتا ہے

ہے تکبر متاعِ رسوائی
مرتبہ عاجزی سے ملتا ہے

جو بھی ہے اس نظرؔ کا گرویدہ
دل مرا بس اسی سے ملتا ہے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top