غزل - بند رکھنے لگا ہوں فون بہت - منیبؔ احمد

منیب الف

محفلین
ایک تازہ غزل!
یاسر شاہ بھائی نے مجھ سے لکھوائی ہے:
کہاں ہو بھائی میاں! میرا چالو نمبر لے گئے اور اپنا بند نمبر دے گئے -:LOL:
بند رکھنے لگا ہوں فون بہت
مجھ کو تنہائی میں سکون بہت

شوق گھٹتا گیا ہے عمر کے ساتھ
نوجوانی میں تھا جنون بہت

زندگی یوں تو اِک فسانا ہے
پر فسانا ہے پُر فسون بہت

نیم عریاں ہے خود تو چرواہا
اُس کی بھیڑوں پہ لیکن اون بہت

پیدا کرتا ہے قرن ایک اویسؒ
بیت جاتے ہیں جب قرون بہت

ہر مہینا ہی اِبتلا ہے مگر
جنوری سرد گرم جون بہت

میرے اشعار کیوں نہ تر ہوں منیبؔ
صَرف اِن میں کیا ہے خون بہت​
اساتذہ اور احباب سے اصلاح و تنقید کی درخواست ہے۔
بہت شکریہ!
 

الف عین

لائبریرین
اصلاح کی ضرورت تو نہیں لیکن زبردستی دو باتیں کہوں گا
مطلع کے دوسرے مصرعے میں 'ہے' کی کمی محسوس ہوتی ہے
فسون محاورہ نہیں، محض فسوں ہوتا ہے مگر قافیے کی مجبوری!
 
یقین جانیے میں ادھر بھی کوئی خواب پڑھنے آیا تھا، لیکن مایوسی ہوئی۔

اگر آپ آخری شعر میں 'اشعار' کی بجائے 'خواب' لکھتے تو یہ کمی بھی پوری ہو جاتی۔ بہرحال آپ نا لکھیے گا میں خود ہی خواب پڑھ کر اپنی مایوسی کم کر لیتا ہوں۔ :)

غزل اچھی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اگر آپ آخری شعر میں 'اشعار' کی بجائے 'خواب' لکھتے تو یہ کمی بھی پوری ہو جاتی۔ بہرحال آپ نا لکھیے گا میں خود ہی خواب پڑھ کر اپنی مایوسی کم کر لیتا ہوں۔ :)
واللہ چوہدری صاحب کیا تر و تازہ تخیل ہے، وقت ایک لمحے میں ایک تہائی صدی پیچھے چلا گیا! :)
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم عزیزم
بہت عمدہ غزل کہی ہے -ما شاء اللہ

شوق گھٹتا گیا ہے عمر کے ساتھ
نوجوانی میں تھا جنون بہت


نیم عریاں ہے خود تو چرواہا
اُس کی بھیڑوں پہ لیکن اون بہت

پیدا کرتا ہے قرن ایک اویسؒ
بیت جاتے ہیں جب قرون بہت


میرے اشعار کیوں نہ تر ہوں منیبؔ
صَرف اِن میں کیا ہے خون بہت

یہ اشعار بطور خاص پسند آئے -
باقی تنقید کے لحاظ سے اعجاز صاحب سے متفق ہوں مطلع کے دوسرے مصرع کے لئے متبادل مصرعے پیش ہیں،شاید کسی کام کے ہوں :

کہ ہے تنہائی میں سکون بہت
یا
مجھ کو خلوت میں ہے سکون بہت

یوں ہی لکھتے رہیے اور پیش کرتے رہیے -جزاک اللہ
 

منیب الف

محفلین
السلام علیکم عزیزم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ مہربانم :handshake:
بہت عمدہ غزل کہی ہے -ما شاء اللہ
جزاک اللہ، الحمد للہ، الشکر للہ :in-love:
یہ اشعار بطور خاص پسند آئے -
باقی کیوں نہیں آئے :cry:
باقی تنقید کے لحاظ سے اعجاز صاحب سے متفق ہوں
دو تین مہینے بعد کچھ لکھا ہے۔ دو تین صفحے تو ناقدانہ تحریر فرماتے۔
ہم تو مشتاق آپ کی تنقید کے ہیں، آپ اتفاق فرما گئے۔
”خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو“ کچھ نہ سوجھے تو بھی لکھا کریں۔
مطلع کے دوسرے مصرع کے لئے متبادل مصرعے پیش ہیں، شاید کسی کام کے ہوں:
کہ ہے تنہائی میں سکون بہت
یا
مجھ کو خلوت میں ہے سکون بہت
آپ کے تجویز کردہ متبادلات عمدہ ہیں (ہر بار کی طرح)
لیکن میں نے ”مجھ کو تنہائی میں سکون بہت“ اِسے اِس لیے نہیں چھیڑا کیونکہ یہ پہلا مصرع تھا جو اس غزل کا مجھے سوجھا۔
اسی پہ باقی مصرعوں کو بٹھایا اور اس غزل کی بنیاد رکھی۔
سوچا یہ اَن تراشا ہی رہے تو بہتر ہے :)
 
Top