غزل : بس لمحے بھر میں فیصلہ کرنا پڑا مجھے : از: عدیل زیدی ؔ

ظفری

لائبریرین
بس لمحے بھر میں فیصلہ کرنا پڑا مجھے​
سب چھوڑ چھاڑ گھر سے نکلنا پڑا مجھے​
جب اپنی سرزمین نے مجھ کو نہ دی پناہ​
انجان وادیوں میں اُترنا پڑا مجھے​
پاؤں میں آبلے تھے تھکن عمر بھر کی تھی​
رُکنا تھا ، بیٹھنا تھا ، پہ چلنا پڑا مجھے​
اپنی پرکھ کے واسطے طوفاں کے درمیاں​
مضبوط کشتیوں سے اُترنا پڑا مجھے​
تیری انا کے ہاتھ میں تھے تیرے فیصلے​
تو تُو بدل نہ پایا ، بدلنا پڑا مجھے​
بے انتہا تضاد تھا دونوں کی سوچ میں​
کچھ یوں بھی راستے کو بدلنا پڑا مجھے​
یہ بھی ہوا کہ بادل ناخواستہ کبھی​
زندہ حقیقتوں سے مُکرنا پڑا مجھے​
یکجا رہا اک عمر مگر تیری دید کو​
مانندِ مشتِ خاک بکھرنا پڑا مجھے​
آغاز اپنے بس میں نہ انجام ہی عدیل​
اک زندگی گذار کے مرنا پڑا مجھے​
( عدیل زیدی )​
 

مغزل

محفلین
بہت خوب ظفری بھائی ۔۔ کیا اچھا انتخاب ہے واہ ۔۔
تیری انا کے ہاتھ میں تھے تیرے فیصلے
تو تُو بدل نہ پایا ، بدلنا پڑا مجھے
یہ بھی ہوا کہ بادل ناخواستہ کبھی
زندہ حقیقتوں سے مُکرنا پڑا مجھے
رات ہی یہ غزل عدیل بھائی سے دوسری بار سننے کا شرف حاصل ہو ا۔۔۔ گزشتہ شب (مورخہ 29 اپریل 2012)، کراچی میریّٹ ہوٹل میں ، عدیل بھائی سے(تیسری بار بھی) تفصیلی ملاقات رہی اور مشاعرہ کا اہتمام تھا ۔ آج (کچھ دیر میں) عدیل بھائی امریکہ واپس روانہ ہورہے ہیں ۔ تصاویر اور روداد انشا اللہ شامل کرتا ہوں۔
 

غ۔ن۔غ

محفلین
پاؤں میں آبلے تھے تھکن عمر بھر کی تھی​
رُکنا تھا ، بیٹھنا تھا ، پہ چلنا پڑا مجھے​
اپنی پرکھ کے واسطے طوفاں کے درمیاں​
مضبوط کشتیوں سے اُترنا پڑا مجھے​
یہ بھی ہوا کہ بادل ناخواستہ کبھی
زندہ حقیقتوں سے مُکرنا پڑا مجھے
یکجا رہا اک عمر مگر تیری دید کو
مانندِ مشتِ خاک بکھرنا پڑا مجھے
آغاز اپنے بس میں نہ انجام ہی عدیل
اک زندگی گذار کے مرنا پڑا مجھے​
واہ بہت ہی زبردست ظفری بھائی ۔ ۔ ۔ ۔
عدیل زیدی صاحب کا یہ خوبصورت کلام ہم سے شئیر کرنے کا بہت شکریہ​
 

ظفری

لائبریرین
تمام احباب کی پسندیدگی کا بہت شکریہ ۔ ان شاءاللہ جلد ہی ان کا مذید کلام بھی شئیر کروں گا ۔ ویسے موصوف امریکہ میں ہی ہوتے ہیں اور ہیوسٹن ٹیکسس میں رہائش پذیر ہیں ۔
 
Top