احمد ندیم قاسمی غزل: برہنہ پا میں سوئے دشتِ درد چلتا ہوں

برہنہ پا میں سوئے دشتِ درد چلتا ہوں
میں اپنی آگ میں اپنی رضا سے جلتا ہوں

مرے مزاج کی چارہ گری کرے گا کون
چمن کی راہ سے، صحرا میں جا نکلتا ہوں

اگر جلا نہ سکا مجھ کو آفتاب کوئی
میں رنگ و بو کی تمازت میں کیوں پگھلتا ہوں

مجھے تو پیکرِ محسوس سے محبت ہے
میں صرف ایک تصور سے کب بہلتا ہوں

سمیٹ لیتا ہے باہوں میں میرا عشق مجھے
میں جب بھی فکر کی ڈھلوان سے پھسلتا ہوں

رتوں کے جبر سے آزاد ہو چکا ہوں ندیمؔ
خزاں میں پھولتا ہوں، آندھیوں میں پھلتا ہوں

٭٭٭
احمد ندیم قاسمی
 
Top