:غزل : برہا کی رت آئی ہے ناچوں گاؤں کس کے لیے : از صالح اچھّا (جبران خلیل)

مغزل

محفلین
گنگا جمنی ندیوں کے حسین سرگم سے ہندی سرسوتی گجراتی زبانوں کا مرقّع دوست احباب کی نذر۔ بشکریہ: محفل ِسخن

غزل
(پریم کا بندھن سب سے اُتّم)

برہا کی رت آئی ہے ناچوں گاؤں کس کے لیے
رانجھا مجھ سے روٹھ گیا، ہیر سناؤں کس کے لیے

آج ملا ہے پَتر تمھارا ، تم نے ساتھی ڈھونڈ لیا
بالی نوچوں، کنگن توڑوں، مہندی لگاؤں کس کے لیے

تم کیا روٹھے، روٹھا مجھ سے اب تو سارا گاؤں
بیت ہی گئے جب سمے سہانے آس لگاؤں کس کے لیے

اب کے ساون ایسا برسا ڈوب کے رہ گئی من کی بغیا
میں بِر ہنیا، پریم کی ماری، ساون گاؤں کس کے لیے

پریم کا بندھن سب سے اُتّم، پریم تو مانگے جان
جان تو پریتم لے گیا موری، بازی لگاؤں کس کے لیے

من مندر میں گھُپ اندھیارا، اکھڑی جائے سانس
بِرہا آگ میں جل رہی ہوں ، دیپ جلاؤں کس کے لیے

کس کی نگری میں جا بیٹھے ہو ، کچھ تو مورکھ بول
ٹھور ٹھکانہ ملتا نہیں ہے پھیرا لگاؤں کس کے لیے

تکتے تکتے راہ میں ہاری، آنکھ پتھرائی صالح جی
دھیرے دھیرے بجھ گئے نیناں، جوت جگاؤں کس کے لیے


صالح اچھّا، گجرات (سورت) ہندوستان
(المعروف : جبران خلیل )​
 

مغزل

محفلین
حاشیہ :
نوجوان نسل کے شعراء جو اس راہِ پرخار میں مسلسل سفر کررہے ہیں کے لیے ایک ادبی مکالمہ کو بھی شامل کیے دے رہا ہوں تاکہ ۔ مجھ سمیت احباب کا بھلا ہو۔ ایسا کہیں بھی تبحّرِ علمی ظاہر کرنے کے لیے نہیں ہے۔
=====================


قابلِ صدا حترام صالح اچھّا (المعرف جبران خلیل /جے کے) صاحب
آدا ب وسلامِ مسنون وبرکت و رحمت ِ تعالیٰ
آپ کا کلام باصرہ نواز ہوا، رسید پیش کر کے مقدور بھر رائے کی مہلت اور مراسلت کی اجازت طلبی کے بعدحاضر ہوں۔۔۔ سب سے پہلے تو عذر کہ بہت مجبوری میں فرنگی رسم الخط میں لکھنا پڑھتا ہے وگرنہ جو لطف جو چاشنی جو سیرابی کا معاملہ نستعلیق رسم الخط میں مراسلت و مکتوب نگاری کا ہے وہ۔۔۔ کہیں اور کسی دیگر رسم الخط میں ممکن نہیں۔۔۔۔۔۔ایک صراحت کہ آپ کے کلام پر بات کرنا ادبی رو میں محض اپنی جھجھک دور کرنا ہی ہے۔۔ وگرنہ ”شب آفریدی چراغ آفریدم “ کی ذیل میں بقول:
” خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گِلِ کوزہ “
کے بعد ”کوزہ وہ ایاغ دیدم “ کے حامل و مصداق مجھ ایسے دریوزہ گر کو کیا جراءت کہ لبِ گستاخ کومہلتِ بیان دوںیا شترِ بے مہار کی طرح ادب وادیوں میں منھ مارتا پھروں ۔۔۔۔ مجھ ایسے جہل مرتبت کو ہرگز ہرگز سزاوار نہیں کہ میں لب کشائی کی جراءت کرسکوں۔۔۔۔ مگر کیا کیا جائے کہ جن بزرگوں کی جوتیا ں سیدھی کرنے کا شرف حاصل ہے وہاں سے یہ تربیت بھی نصیب ہوئی کہ:
” مغل میاں ۔۔۔۔ جب آپ کسی کا اعتراف کرو گے تو دراصل اپنا اعتراف کرو گے۔۔۔ اور بات ہمیشہ اپنی مقدور بھر طبیعت ، میلان اور کسبی علم کے تحت کیا کرنا باتوں کو ہوا میں مت تحلیل ہونے دینا، ہمیشہ لکھ کر کرنا تاکہ تحلیلِ نفسی کی صورت بہم رہے اور ۔۔۔اس میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ تم کچھ غلطی کر جاؤ اور تمھاری اصلاح ہوسکے ۔۔۔“
اور یوں بھی اپنے اسلاف کی روشنی میں اس بات کا قائل ہوں کہ اسلاف کو یاد کرنا اور یاد رکھنا تہذیب کے استمرار کی علامت ہے ۔۔ ۔ مادہ پرست دنیا میں جہاں تہذیبی اقدار اور رویے ” دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا “ کے نوحے کرتے نظر آتے ہیں وہاں مجھ ایسے نوواردانِ بساطِ ادب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قدماء، متوسطین اور متاخرین سمیت متبدلین کے قدم بہ قدم و خاکِ قدم ہوکر (صرف ونحو کے مطابق تو یہاں ”شانہ بہ شانہ“ کا محل ہے مگر میں متحمل نہیں ہوسکتاسو صرفِ نظر کیجئے گا) مملکتِ ادب کے نشاط ا و رترویج کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ اپنا حصہ ملائیں۔۔۔میںاس بات پر آپ کی حمایت چاہوں گا کہ جیسا کہ سبھی احباب جانتے ہیں کہ اسالیبِ شعری میں غزل کی نازک اندام حسینہ عرب و فارس سے ہم تک پہنچی اور یہیں کی ہو کے رہ گئی اور اب صورتحال یہ کہ ہے موصوفہ کا اپنے ”میکے“ سے کوئی واسطہ نہیںیعنی پیا گھر ہی اب اس کا اصل گھر ہے اور(میرے منھ میں خاک ۔۔۔اللہ نہ کرے) اب یہاں سے اس کی ارتھی ہی اٹھے گی وگرنہ واپسی کا دروازہ ڈولی میں یہاں تک کے سفر کے بعد بند ہوگیا ہے۔۔ جبکہ برِ صغیر پاک و ہند کی زرخیز مٹّی نے اپنے بطن سے وید اشلوک کی روایات کو تابندہ رکھتے ہوئے گیت کو جنم دیا جودوشیزاؤں کے دلوں کی آواز،سہاگنوں کے نِیر بہانے اور منڈیروں پر دیپ جلانے۔۔۔ کامنی حسیناؤں کے پریم پَتر کا حسن اور سَکھیوں کے پنگھٹ پر جمع ہوکر چرخے کی لے پر گنگنانے ، بالک ہٹ اور تریاہٹ کے فاصلوں کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ چرواہوں کے جنگلوں گھاٹیوں وادیوں میں ڈھور ڈنگروں کو مجتمع کرنے میں اپنی مثال خود ہے ۔۔۔ گیت نگاری کو جوشہرت اور دوام امیر خسر و علیہ رحمت الرحمن نے عطا کیا وہاں برِ صغیر کے بھگت کبیر کا نام بھی لیا جائے گا کہ جدید دوہے طرز گیت نگاری(کی موجودہ شکل میں) میں ان کا بھی حصہ ہے۔۔ غزل جہاں ”عورت“ سے بات کرنے کا نام ہے وہاں گیت ”عورت کے“ کے بات کرنے کا لہجہ ہے۔۔۔۔۔ اب گیت کی بات آگئی ہے تو گیت کی مٹھاس اور سوز کے مختلف ذائقے ہیں ۔۔۔ پورب ، پچھم ، اُتّر ہو کہ علاقائی بول چال کے لہجے گیت اپنی زمین سے جڑا ہوتا ہے اور اپنی پوری تہذیب، ثقافت اور روایات کی عکاسی کرتا ہے اور روح سے کسبِ کیفیات کرتا ہے۔۔۔آپ اور احباب اور یقینامیری اس نالائقی پر غصہ ہورہے ہوں گے کہ بات ”غزل ‘ ‘ پرکرنی تھی اور میں کہاں کی بے سرو پا لے بیٹھا ہوں۔۔میں اسی طرف آتا ہوں ۔۔ گنگا جمنی تہذیب اور سَرسوَتی دھارے میں ۔۔۔زبانوں ، علاقائی بول چال اور تہذیبوں کا مُرَقّع ۔۔۔اپنے ساختیاتی تشکّل میں غزل کی صناعی ، گیت کی دلربائی لیے ہوئے ہیں یعنی ہیئت کے اعتبار اور برتاؤ سے ہم اسے غزل کے طور پر لیتے ہیں (جیسا کہ” غزل“ لکھنے کے بعد ” پریم کا بندھن سب سے اُتَّم “ کا عنوان بھی آگیا ۔۔ ) لیکن اپنے مزاج ،نفسِ مضمون ، قلبِ ماہیت اور کسک اور زبانِ اظہار سے یہ مکمل گیت ہے ۔۔ ایک سہاگن کا دکھڑا، ایک کامنی حسینہ کانوحہ ہے اس کے دل کی آواز ہے ۔۔۔ جسے قدرت نے کیفیات کے بیان کے لیے آپ کے ہاں دامنِ غزل کی تنگنائی اور گیت کی انگڑائی کی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ بھیجا ہے۔۔۔۔

” پریم کا بندھن سب سے اُتَّم “ / غزل

برہا کی رت آئی ہے ناچوں گاؤں کس کے لیے
رانجھا مجھ سے روٹھ گیا، ہیر سناؤں کس کے لیے

آج ملا ہے پَتر تمھارا ، تم نے ساتھی ڈھونڈ لیا
بالی نوچوں، کنگن توڑوں، مہندی لگاؤں کس کے لیے

تم کیا روٹھے، روٹھا مجھ سے اب تو سارا گاؤں
بیت ہی گئے جب سمے سہانے آس لگاؤں کس کے لیے

اب کے ساون ایسا برسا ڈوب کے رہ گئی من کی بغیا
میں بِر ہنیا، پریم کی ماری، ساون گاؤں کس کے لیے

پریم کا بندھن سب سے اُتّم، پریم تو مانگے جان
جان تو پریتم لے گیا موری، بازی لگاؤں کس کے لیے

من مندر میں گھُپ اندھیارا، اکھڑی جائے سانس
بِرہا آگ میں جل رہی ہوں ، دیپ جلاؤں کس کے لیے

کس کی نگری میں جا بیٹھے ہو ، کچھ تو مورکھ بول
ٹھور ٹھکانہ ملتا نہیں ہے پھیرا لگاؤں کس کے لیے

تکتے تکتے راہ میں ہاری، آنکھ پتھرائی صالح جی
دھیرے دھیرے بجھ گئے نیناں، جوت جگاؤں کس کے لیے​

میں نے کوئی ایک شعر پسند آنے میں اپنی کم حیثیتی کا اظہار یہ غزل یہ گیت نما غزل مکمل تحریر کر کے کر دیا ہے ۔۔۔ کہ کسی ایک شعر کا انتخاب کرنا ایسا ہے کہ جیسے باغ میں جا کر پھولوں سے خوشبوئیں کشید کر کے انہیں قطار میں کھڑا کرنا۔۔ یہ غزل سراپا گیت ہے یا یہ گیت سراپا غزل ہے ۔۔کسی شعر کی تفہیمی صورت کو بیان کرنا ایسا ہے جیسے دیگر قارئین کے حسنِ ذوق اور حسِ لطیف کا مذاق اڑانا۔۔۔غزل/ گیت کی خاص بات جو اسے ممتاز کرتی ہے وہ اس کا تسلسل میں ہونا ہے ۔ ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جسے پردے پر فلم چل رہی ہے ۔۔۔ اور مناظر دوڑتے پھر رہے ہوں۔۔مجھے ہندی ماتراؤں پر اتنا عبور تو نہیں ہے ۔ ۔۔ مگر ایک مصرعے ”بِرہا آگ میں جل رہی ہوں“کی میں روانی میں کچھ جبر محسو س ہو رہا ہے ۔۔۔ جیسے نازک اندازم حسینہ بل کھاتی پگڈنڈیوں پر خرام کرتی جارہی ہو اور اچانک پاؤں میں کانٹا چبھ جائے ۔۔۔ امید ہے یہ میری کوتاہ نظری ہی ہوگی مگر آپ کی شفقت کا منتظر رہوںگا۔ ۔۔ مجھ غریب العقل کی جانب سے اس مرقع پر صمیم ِ قلب سے ہدیہ تحسین قبول کیجیے امید ہے کہ جہاں جہاں مجھ کم حیثیت سے اغلاط کا سرزد ہونا ثابت ہوگا وہاں وہاں آپ کی عنایت اور شفقت میرا حوصلہ بڑھائے گی۔۔۔ دل کی عمیق و بسیط پہنائیوں سے دعا گو ہوں کہ مالک و مولیٰ آپ ایسے صاحبانِ کرم کی صحبتِ صالح کا فیض مجھ ایسے طفلا نِ مکتب کو عطا فرمائے، ا ٓمین ۔ ۔۔
احقر، کم خلوص، نیاز مشرب،جہل مرتبت:
م۔م۔مغل (اسیرِ زلفِ کلاچی) پاکستان
 

مغزل

محفلین
جبران صاحب کا جوابی مکتبوب:
(بہ امرِ مجبوری اور اصل کی صحت کے طور پر تصویری آہنگ میں ہی پیش کرتا ہوں)
murasl10.gif

murasl12.gif

murasl13.gif
 

الف عین

لائبریرین
پہلے مصرع پر ہی میں چونک گیا کہ یہ برہا بھی کیا ساون یا گرمی سردی کی طرح موسم ہے کہ جس میں ناچنا گانا متوقع ہو؟؟
 

مغزل

محفلین
شکریہ بابا جانی۔ بِرہا : جدائی فراق ہجر کے معنوں میں ہی ہے اسے شاعر نے کیفیت کے طور پر موسم کے حوالے سے برتا ہے۔
لیکن بعد میں تبدیلی کردی ۔ آپ کی محبتوں کے لیے سراپا سپاس ہوں بابا جانی۔
 
Top