غزل (برائے تنقید و اصلاح)

شاہ آتش

محفلین
سخن کو غزل سے یوں فرصت ملی ہے
غمِ دل کو دل سے جو رخصت ملی ہے

مرے اس قلم کو تُو کر دے مبارک
سخن کو الٰہی کہ مدحت ملی ہے

مجھے دل کو زم زم سے دھونا پڑا ہے
تجھے دیکھنے کی اجازت ملی ہے

وہ بچھڑا تو بالکل ہی ساکت رہا دل
کہ یاسین سے دل کو حرکت ملی ہے

بہت رو چکا ہوں مگر خوش ہوں میں اب
کہ دل کو جو رونے کی عادت ملی ہے

میں شہرِ اماں میں ہی بسمل بنا ہوں
بے مقصد ہی لوگوں کو وحشت ملی ہے

میں عاشق ترے در کا آتشؔ ہوں اب کے
مودّت کی حدّت کو شدّت ملی ہے
 
شاہ صاحب، آپ کے کلام کے میں ماشاء اللہ بحر و اوازن کی خامیاں تو نظر نہیں آتیں۔ معنی و مفہوم کے حوالے سے کچھ اشعار میں سقم نظر آتا ہے۔

سخن کو غزل سے یوں فرصت ملی ہے
غمِ دل کو دل سے جو رخصت ملی ہے
مطلع دولخت لگتا ہے، یا پھر مجھے مفہوم کا ادراک نہیں ہوسکا۔

مرے اس قلم کو تُو کر دے مبارک
سخن کو الٰہی کہ مدحت ملی ہے
اولاً یہ کہ سخن کا تعلق زبان سے ہے، نہ کہ قلم سے ۔۔۔ سو قلم کے مقابل سخن کا تذکرہ مجھے ٹھیک نہیں لگتا۔
ثانیاً دونوں مصرعوں میں ٹینسز گڑبڑا رہے ہیں۔ جب سخن مدحت ’’مل چکی‘‘ ہے تو پھر پہلے مصرعے میں تمنائی اسلوب کے کیا معنی؟
ثالثاً، مدحت کی جاتی ہے، یا ہوتی ہے ۔۔۔ ملتی نہیں ہے

مجھے دل کو زم زم سے دھونا پڑا ہے
تجھے دیکھنے کی اجازت ملی ہے
دوسرے مصرعے کے اسلوب کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا جائے۔ یعنی دھونا پڑے گا کہیں، بصورتِ دیگر دوسرے مصرعے میں فعل ماضی کا صیغہ آنا چاہیے جو کہ آپ کی زمین میں ممکن نہیں۔

وہ بچھڑا تو بالکل ہی ساکت رہا دل
کہ یاسین سے دل کو حرکت ملی ہے
یہ شعر بھی سمجھ نہیں آسکا۔

بہت رو چکا ہوں مگر خوش ہوں میں اب
کہ دل کو جو رونے کی عادت ملی ہے
کیوں؟ اچانک خوشی کی علت سمجھ نہیں آتی۔

میں شہرِ اماں میں ہی بسمل بنا ہوں
بے مقصد ہی لوگوں کو وحشت ملی ہے
یہ بھی دولخت ہے۔
دوسرے یہ کہ بے مقصد کی ے کا اسقاط درست نہیں۔

میں عاشق ترے در کا آتشؔ ہوں اب کے
مودّت کی حدّت کو شدّت ملی ہے
یہ شعر بھی واضح نہیں۔
 

شاہ آتش

محفلین
شاہ صاحب، آپ کے کلام کے میں ماشاء اللہ بحر و اوازن کی خامیاں تو نظر نہیں آتیں۔ معنی و مفہوم کے حوالے سے کچھ اشعار میں سقم نظر آتا ہے۔
جزاک اللہ محترم!

مطلع دولخت لگتا ہے، یا پھر مجھے مفہوم کا ادراک نہیں ہوسکا۔
مطلع میں اتنا ہے کہ میں اب غزل گوئی نہیں کرسکتاکیونکہ میرے دل کا غم میرے دل سے رخصت ہوچکا ہے۔

دوسرے مصرعے کے اسلوب کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا جائے۔ یعنی دھونا پڑے گا کہیں، بصورتِ دیگر دوسرے مصرعے میں فعل ماضی کا صیغہ آنا چاہیے جو کہ آپ کی زمین میں ممکن نہیں۔
مجھے دل کو زم زم سے دھونا پڑے گا
تجھے دیکھنے کی اجازت ملی ہے

یہ شعر بھی سمجھ نہیں آسکا۔
محبوب کے بچھڑنے سے دل ساکت ہوگیا۔ پھر سورۃ یس سے دل متحرک ہوا

کیوں؟ اچانک خوشی کی علت سمجھ نہیں آتی۔
کیونکہ رونے کی عادت ہوچکی ہے اسی بات کی خوشی ہے۔اچانک یا رفتہ رفتہ، دونوں معلوم ہوتے ہیں۔ قاری پر منحصر ہے کہ کیا سوچتا ہے۔

یہ بھی دولخت ہے۔
دوسرے یہ کہ بے مقصد کی ے کا اسقاط درست نہیں۔
مجھے تو بے مقصد ہی بسمل بنایا
کہ شہرِ اماں سے ہی وحشت ملی ہے

اسقاط کے لئے تو صوتی تاثر بھی تو ضروری ہوتا ہے۔ دوسرے شعراء کرام نے اسے غلط نہیں بتایا۔

یہ شعر بھی واضح نہیں۔
ترے عشق نے ایسے آتشؔ بنایا
مودت کی حدت کو شدت ملی ہے
 
Top