غزل برائے اصلاح........

صفی حیدر

محفلین
سر الف عین اور دیگر اساتذہ سخن و شرکاء محفل سے اصلاح کی استدعا ہے.......
الجھنیں کم ہوں گی جب گفتگو ہو گی
فاصلے کم ہوں گے جب روبرو ہوگی
کب یہ سوچا تھا ایسا وقت آئے گا
آپ سے بات چل کر تم سے تُو ہو گی
زخمِ دل کی مسیحائی تو کرتے ہو
کیا وہ عزت کی چادر بھی رفو ہوگی
خوب سے خوب تر کی کھوج میں گم ہوں
چاند تاروں سے آگے جستجو ہو گی
جب بہاروں میں کلیوں کا تبسم ہو
دل میں بھنورے کے گل کی آرزو ہو گی
گل کا پیغام گلشن سے صبا لا ئی تھی
گل بدن آج اس کے روبرو ہو گی
وہ چہکتے ہیں جس محفل میں ساری رات
وہ یقیناً صفی بزمِ عدو ہو گی
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
سر الف عین اور دیگر اساتذہ سخن و شرکاء محفل سے اصلاح کی استدعا ہے.......
الجھنیں کم ہوں گی جب گفتگو ہو گی
فاصلے کم ہوں گے جب روبرو ہوگی
کب یہ سوچا تھا ایسا وقت آئے گا
آپ سے بات چل کر تم سے تُو ہو گی
زخمِ دل کی مسیحائی تو کرتے ہو
کیا وہ عزت کی چادر بھی رفو ہوگی
خوب سے خوب تر کی کھوج میں گم ہوں
چاند تاروں سے آگے جستجو ہو گی
جب بہاروں میں کلیوں کا تبسم ہو
دل میں بھنورے کے گل کی آرزو ہو گی
گل کا پیغام گلشن سے صبا لا ئی تھی
گل بدن آج اس کے روبرو ہو گی
وہ چہکتے ہیں جس محفل میں ساری رات
وہ یقیناً صفی بزمِ عدو ہو گی
مشاکل مسدس سالم ۔۔۔ فاعلاتن مفاعیلن مفاعیلن ۔۔۔
اس بحر میں کوئی غزل آج تک میں نے نہیں پڑھی۔ مزید گفتگو۔۔۔ ایک توقف کے بعد ۔۔۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
شاہد بھائی آپ کہی اصلاحی رائے کا شدت سے انتظار ہے....... لکھی واقعی مشاکل مسدس سالم میں ہے... اصلاح کا منتظر ہوں.......
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
الجھنیں کم ہوں گی جب گفتگو ہو گی​
فاصلے کم ہوں گے جب روبرو ہوگی​
۔۔۔ ہوگی ۔۔۔ مؤنث ہے، ہم غزل میں محبوب کو مذکر ہی رکھتے آئے ہیں، اس لیے ذاتی طور پر یہ بات پسند نہیں کرتے، لیکن بہت سے شعراء نے ایسا کیا ہے۔ تو یہ بھی سہی۔۔۔
کب یہ سوچا تھا ایسا وقت آئے گا​
آپ سے بات چل کر تم سے تُو ہو گی​
۔۔۔ کمزور ہے۔۔۔ شعر سے ایسا لگتا ہے کہ آپ "بات" کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ وہ تم سے تو ہوگی، جبکہ آپ کی مراد محبوب ہے، بات نہیں۔ بات کا صیغہ بھی کہہ سکتے ہیں ، لیکن بذاتِ خود بات تو نہیں۔
زخمِ دل کی مسیحائی تو کرتے ہو​
کیا وہ عزت کی چادر بھی رفو ہوگی​
۔۔۔ شعر کا موضوع ہی وہ لائے آپ جس پر قلم اٹھانا غزل میں شدید مشکل ہے۔ عزت کی چادر کا رفو کرنا، اگر اس سے مراد وہی ہے جو میں سمجھ رہا ہوں۔ لیکن اگر اس سے مراد محض احترام اور ادب ہے تو بیان اسے دوسری طرف لے گیا۔ عزت سے مراد اگر عصمت ہی ہے جیسا کہ میں سمجھا تو شائستہ نہیں، نہ ہوسکتا ہے۔
خوب سے خوب تر کی کھوج میں گم ہوں​
چاند تاروں سے آگے جستجو ہو گی​
۔۔۔ اس موضوع کو تو چھوڑ ہی دیجئے، ہم بھی ناکام ہوچکے ہیں۔ کیونکہ حالی اس سے بہت بہتر بہت پہلے کہہ چکے۔ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں ۔۔۔ اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں ۔۔۔ اور یہاں اقبال سے بھی مماثلت نظر آتی ہے۔۔۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔۔۔ اگر آپ ایسا موضوع چنتے ہیں تو بیان کو حد درجہ جاندار ہونا چاہئے، جسے یہاں میں جاندار سمجھنے سے قاصر ہوں، شاید کوئی اور اسے بہتر سمجھ پائے۔
جب بہاروں میں کلیوں کا تبسم ہو​
دل میں بھنورے کے گل کی آرزو ہو گی​
۔۔۔ بہار تو خود کلیوں کے تبسم کا سبب ہے،اور بھنورے کے دل میں تو گل کی آرزو ہمیشہ رہتی ہے۔ اس کے لیے کوئی شرط کیوں؟
گل کا پیغام گلشن سے صبا لا ئی تھی​
گل بدن آج اس کے روبرو ہو گی​
۔۔۔ پہلا مصرع شاید تقطیع سے گر گیا ہو، دوبارہ دیکھئے گا۔ معنوی اعتبار سے ناقابل فہم ہے۔ صبا پھول کا پیغام لاتی ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ گل بدن کس کے روبرو ہوگی؟ گل کے؟؟
وہ چہکتے ہیں جس محفل میں ساری رات​
وہ یقیناً صفی بزمِ عدو ہو گی​
۔۔۔ کمزور ہے۔۔دشمن کی بزم میں محبوب کا چہکنا ویسے بھی کوئی نیا خیال نہیں۔ توجہ فرمائیے گا۔۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
الجھنیں کم ہوں گی جب گفتگو ہو گی فاصلے کم ہوں گے جب روبرو ہوگی​
۔۔۔ ہوگی ۔۔۔ مؤنث ہے، ہم غزل میں محبوب کو مذکر ہی رکھتے آئے ہیں، اس لیے ذاتی طور پر یہ بات پسند نہیں کرتے، لیکن بہت سے شعراء نے ایسا کیا ہے۔ تو یہ بھی سہی۔۔۔
شاہد بھائی... یہاں محبوب کا ذکر نہیں کیا ہے... ایک عمومی بات کی ہے کہ جب باہمی گفتگو کی جائے اور جو بھی مسائل ہوں ان کو بات چیت سے حل کیا جائے تو بہت سی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے جیسے حفیظ ہوشیار پوری صاحب نے کہا ہے
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
دوسرے مصرعے میں اسی بات کو آگے بڑھایا ہے کہ روبرو آمنے سامنے گفتگو کرنے سے باہمی فاصلے کم ہوتے ہیں اور دلوں میں جو بھی رنجشیں اور شکوے ہوں کہہ سن کر ختم کیے جا سکتے ہیں
 

صفی حیدر

محفلین
کب یہ سوچا تھا ایسا وقت آئے سے بات چل کر تم سے تُو ہو گی​
۔۔۔ کمزور ہے۔۔۔ شعر سے ایسا لگتا ہے کہ آپ "بات" کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ وہ تم سے تو ہوگی، جبکہ آپ کی مراد محبوب ہے، بات نہیں۔ بات کا صیغہ بھی کہہ سکتے ہیں ، لیکن بذاتِ خود بات تو نہیں۔
یہاں میری مراد بات ہی ہے، طرزِ گفتگو ہے، جو اخلاق و تہذیب کی آئینہ دار ہوتی ہے... کبھی آپ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا اور اب نوبت تُو تکار تک پہنچ چکی ہے... اخلاقی و تہذیبی زوال کا اظہار کیا ہے.....
 

صفی حیدر

محفلین
زخمِ دل کی مسیحائی تو کرتے ہو کیا وہ عزت کی چادر بھی رفو ہوگی​
۔۔۔ شعر کا موضوع ہی وہ لائے آپ جس پر قلم اٹھانا غزل میں شدید مشکل ہے۔ عزت کی چادر کا رفو کرنا، اگر اس سے مراد وہی ہے جو میں سمجھ رہا ہوں۔ لیکن اگر اس سے مراد محض احترام اور ادب ہے تو بیان اسے دوسری طرف لے گیا۔ عزت سے مراد اگر عصمت ہی ہے جیسا کہ میں سمجھا تو شائستہ نہیں، نہ ہوسکتا ہے۔
جب کسی پر قیامت ٹوٹتی ہے کسی بھی حوالے سے ۔۔۔ دل کی دنیا بھی تہس نہس ہو جاتی ہے اور عزت کی بھی دھجیاں اڑ جاتی ہیں ۔۔۔ تو ایسے میں ڈھارس بندھانے والے اور طفل تسلیاں دینے والے تو بہت ہوتے ہیں لیکن آگے بڑھ کر کھوئی ہوئی عزت کو بحال کرنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا ۔۔۔۔۔یہاں عزت سے مراد صرف عصمت نہیں ہے ۔۔۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
خوب سے خوب تر کی کھوج میں گم ہوں چاند تاروں سے آگے جستجو ہو گی​
۔۔۔ اس موضوع کو تو چھوڑ ہی دیجئے، ہم بھی ناکام ہوچکے ہیں۔ کیونکہ حالی اس سے بہت بہتر بہت پہلے کہہ چکے۔ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں ۔۔۔ اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں ۔۔۔ اور یہاں اقبال سے بھی مماثلت نظر آتی ہے۔۔۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔۔۔ اگر آپ ایسا موضوع چنتے ہیں تو بیان کو حد درجہ جاندار ہونا چاہئے، جسے یہاں میں جاندار سمجھنے سے قاصر ہوں، شاید کوئی اور اسے بہتر سمجھ پائے۔
ٹھیک کہا ہے آپ نے اس موضوع کو حالی سے بہتر شاید ہی کوئی کہہ سکے ۔۔ اقبال سے مماثلت شاید چاند ستاروں کے ذکر کی وجہ سے نظر آئی ۔۔۔۔ اس شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ " گم" نے نفسِ مضمون کو بدل دیا ہے ۔۔۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں انسان اکثر خود ہی گم ہو جاتا ہے ۔۔۔ اپنی پہچان کھو دیتا ہے ۔۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
جب بہاروں میں کلیوں کا تبسم ہو دل میں بھنورے کے گل کی آرزو ہو گی​
۔۔۔ بہار تو خود کلیوں کے تبسم کا سبب ہے،اور بھنورے کے دل میں تو گل کی آرزو ہمیشہ رہتی ہے۔ اس کے لیے کوئی شرط کیوں؟
صحیح کہا آپ نے بہاریں کلیوں کے تبسم کا سبب ہوتی ہیں ۔۔ ایسے میں بھنورے کے دل میں گل کی آرزو کی شدت دو آتشہ ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ یہ کوئی شرط نہیں ہے ۔۔۔ بہار کی رت کا عمومی بیان ہے ۔۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
گل کا پیغام گلشن سے صبا لا ئی تھی
گل بدن آج اس کے روبرو ہو گی​
۔۔۔ پہلا مصرع شاید تقطیع سے گر گیا ہو، دوبارہ دیکھئے گا۔ معنوی اعتبار سے ناقابل فہم ہے۔ صبا پھول کا پیغام لاتی ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ گل بدن کس کے روبرو ہوگی؟ گل کے؟؟
درست نشاندہی کی ہے آپ نے پہلے مصرعے میں تھی زائد ہو گیا ۔۔۔۔ اصل مصرعہ ہے " گل کا پیغام گلشن سے صبا لائی " ۔۔۔۔۔ جی پیغام یہی ہے ہے گل کا جو صبا لائی ہے کہ ۔۔۔۔ گل بدن اور گل آج روبرو ہوں گے ۔۔۔۔ قابلِ دید منظر ہوگا ۔۔۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
وہ چہکتے ہیں جس محفل میں ساری راتوہ یقیناً صفی بزمِ عدو ہو گی​
۔۔۔ کمزور ہے۔۔دشمن کی بزم میں محبوب کا چہکنا ویسے بھی کوئی نیا خیال نہیں۔ توجہ فرمائیے گا۔۔۔
خیال تو واقعی قدیم ہے ۔۔۔۔ بے شمار بار اسے پر طبع آزمائی کی جا چکی ہے تو سوچا میں بھی کر لوں ۔۔ ویسے یہ آپ بیتی ہے صرف خیال آفرینی نہیں ہے ۔۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شاہد بھائی... یہاں محبوب کا ذکر نہیں کیا ہے... ایک عمومی بات کی ہے کہ جب باہمی گفتگو کی جائے اور جو بھی مسائل ہوں ان کو بات چیت سے حل کیا جائے تو بہت سی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے جیسے حفیظ ہوشیار پوری صاحب نے کہا ہے
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
دوسرے مصرعے میں اسی بات کو آگے بڑھایا ہے کہ روبرو آمنے سامنے گفتگو کرنے سے باہمی فاصلے کم ہوتے ہیں اور دلوں میں جو بھی رنجشیں اور شکوے ہوں کہہ سن کر ختم کیے جا سکتے ہیں
الجھنیں کم ہوں گی جب گفتگو ہو گی
فاصلے کم ہوں گے جب روبرو ہوگی
اگر وہی بات ہے جو آپ نے فرمائی تو دوسرے مصرعے میں لفظ گفتگو کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ضمیر (وہ، یہ ، اس وغیرہ) ضروری ۔۔۔ یعنی فاصلے کم ہوں گے جب (وہ) روبرو ہوگی۔۔۔اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اسے کیسے لاتے ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہاں میری مراد بات ہی ہے، طرزِ گفتگو ہے، جو اخلاق و تہذیب کی آئینہ دار ہوتی ہے... کبھی آپ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا اور اب نوبت تُو تکار تک پہنچ چکی ہے... اخلاقی و تہذیبی زوال کا اظہار کیا ہے.....
کب یہ سوچا تھا ایسا وقت آئے گا
آپ سے بات چل کر تم سے تُو ہو گی
نثری پیمانے پر لیجئے: کب یہ سوچا تھا کہ ایسا وقت آجائے گا۔ بات آپ سے چل کر تم سے تُو ہوجائے گی؟
اگر غور کیجئے تو یہ بات نہیں ہوتی جو آپ، تم یا تُو ہوجاتی ہے۔ مخاطب یا بذاتِ خود شاعر مراد ہوسکتا ہے۔ اسی لیے میں نے وہی مراد لیا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جب کسی پر قیامت ٹوٹتی ہے کسی بھی حوالے سے ۔۔۔ دل کی دنیا بھی تہس نہس ہو جاتی ہے اور عزت کی بھی دھجیاں اڑ جاتی ہیں ۔۔۔ تو ایسے میں ڈھارس بندھانے والے اور طفل تسلیاں دینے والے تو بہت ہوتے ہیں لیکن آگے بڑھ کر کھوئی ہوئی عزت کو بحال کرنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا ۔۔۔۔۔یہاں عزت سے مراد صرف عصمت نہیں ہے ۔۔۔۔
گویا دونوں ہی مراد ہیں۔ پھر توبیان اور مشکل ہوگیا۔ ۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
الجھنیں کم ہوں گی جب گفتگو ہو گی
فاصلے کم ہوں گے جب روبرو ہوگی
اگر وہی بات ہے جو آپ نے فرمائی تو دوسرے مصرعے میں لفظ گفتگو کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ضمیر (وہ، یہ ، اس وغیرہ) ضروری ۔۔۔ یعنی فاصلے کم ہوں گے جب (وہ) روبرو ہوگی۔۔۔اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اسے کیسے لاتے ہیں۔
شاہد بھائی آپ کی دی ہوئی تجویز کی بعد اگر اس شعر کو یوں کر دیا جائے.....
الجھنیں کم ہوں گی جب گفتگو ہو گی
فاصلے کم ہوں گے وہ روبرو ہوگی
اس میں "وہ" کی تبدیلی کے بعد گفتگو کی طرف بھی اشارہ ہو گیا جس کا ذکر پہلے مصرعے میں ہوا...... اور ایک پہلو ذکرِ محبوب کا بھی نکل آیا...... اب درست ہے...؟؟
 

صفی حیدر

محفلین
کب یہ سوچا تھا ایسا وقت آئے گا
آپ سے بات چل کر تم سے تُو ہو گی
نثری پیمانے پر لیجئے: کب یہ سوچا تھا کہ ایسا وقت آجائے گا۔ بات آپ سے چل کر تم سے تُو ہوجائے گی؟
اگر غور کیجئے تو یہ بات نہیں ہوتی جو آپ، تم یا تُو ہوجاتی ہے۔ مخاطب یا بذاتِ خود شاعر مراد ہوسکتا ہے۔ اسی لیے میں نے وہی مراد لیا۔
اس مصرعے میں آگر " بات چل کر" کے بجائے " بات بڑھ کر" کر دیا جائے تو مفہوم شاید مزید واضح ہو جائے... بات بڑھنا یا بڑھانا محاورے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے
آپ سے بات بڑھ کر تم سے تُو ہو گی
 
شاہد بھائی آپ کی دی ہوئی تجویز کی بعد اگر اس شعر کو یوں کر دیا جائے.....
الجھنیں کم ہوں گی جب گفتگو ہو گی
فاصلے کم ہوں گے وہ روبرو ہوگی
اس میں "وہ" کی تبدیلی کے بعد گفتگو کی طرف بھی اشارہ ہو گیا جس کا ذکر پہلے مصرعے میں ہوا...... اور ایک پہلو ذکرِ محبوب کا بھی نکل آیا...... اب درست ہے...؟؟
ایک ادنیٰ سا مشورہ ہے کہ اگر وہ کے بجائے جو کر لیں تو اشارہ گفتگو کی طرف واضح ہو جائے گا.
 
Top