"غزل" برائے اصلاح

تمہید:
محفل کے احباب کی "پر زور" فرمائش پر ایک عدد گستاخی حاضر ہے.
اساتذہ اور دیگر شعراء سے گزارش ہے کہ بے رحمی سے تجزیہ فرمائیں. تاکہ اردو شاعری پر بوجھ کے بجائے اچھا قاری و سامع بننے پر توجہ دوں.

مثلِ روشن سحر نکھرتے ہو
عشق کی راہ میں جو مرتے ہو

یاد اس کی ہی چین دیتی ہے
جب کبھی ٹوٹ کر بکھرتے ہو

دھوکہ دے کر حبیب کو خوش ہو
تم بھروسے کا خون کرتے ہو

جھوٹ ہے مصلحت کے پردے میں
سچ سے رخ پھیر کر گزرتے ہو

ان کی طاعت عمل میں ہے ہی نہیں
دم محبت کا یونہی بھرتے ہو

ہے یہ احساں اسی کا اے تابشؔ
کہ بگڑ کر جو تم سنورتے ہو

 

ابن رضا

لائبریرین
اولین دو اشعار کا مضمون ہو کی بجائے ہیں کے ردیف کا متقاضی ہے. آپ ہو کی جگہ ہیں پڑھ کر دیکھیے.

یاد اس کی ہی چین دیتی ہے
جب کبھی ٹوٹ کر بکھرتے ہو

ہیں کے ساتھ ایک تجویز تاکہ بھرتی کا "ہی" نکل جائے اور فاعل بھی مبہم نہ رہے. مزید ترتیب بھی نثر کے قریب ہو جائے
اس کی یادیں سمیٹ لیتی ہیں
جب بھی ہم ٹوٹ کر بکھرتے ہیں
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
دھوکہ دے کر حبیب کو خوش ہو
تم بھروسے کا خون کرتےہو

مطلع کے علاوہ باقی ابیات میں اگر شعر کے دونوں مصرعوں میں ردیف کی تکرارہو تو اسے عیب مانا جاتا ہے جسے شاید عیبِ تقابل ردیفین کہا جاتا ہے
 
اولین دو اشعار کا مضمون ہو کی بجائے ہیں کے ردیف کا متقاضی ہے. آپ ہو کی جگہ ہیں پڑھ کر دیکھیے.
جی بالکل،درست فرمایا.
یہاں میں نے پوری غزل میں اپنے آپ کو مخاطب کیا ہے.
مگر آپ کی بات بجا کہ پہلے دو اشعار کا مضمون عمومی ہے. دوسرا پھر انفرادی حیثیت میں لایا جا سکتا ہے.
آپ کیا رائے دیتے ہیں؟
 

ابن رضا

لائبریرین
ان کی طاعت عمل میں ہے ہی نہیں
دم محبت کا یونہی بھرتے ہو


اس میں بھی ہیں ردیف زیادہ بہتر ہے۔ البتہ فاعل ندارد اور کچھ اور ابیات میں بھی فاعل ندارد ہے
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
دھوکہ دے کر حبیب کو خوش ہو
تم بھروسے کا خون کرتےہو

شاید ابلاغ کو بہتربنانے کے لیے کچھ ردوبدل کیجیے جیسے کہ
دوستوں کو فریب دے کر تم
کیوں بھروسے کا خون کرتے ہو

اور ہیں کے ساتھ

دوستوں کو فریب دے کر ہم
کیوں بھروسے کا خون کرتے ہیں
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
ردیف تو "رتے ہو" ہے. کیا صرف ہو سے بھی یہ عیب آئے گا؟
بکھرتے، سنورتے وغیرہ میں قافیہ میں صرف روی کو جانچنے کے لیے عمومی طور پر روی سے اگلے حروف کو ردیف کا حصہ کہہ دیا جاتا ہے جبکہ ان کے لیے علیحدہ اصطلاحات مروج ہیں جیسا کہ وصل، خروج وغیرہ. ردیف البتہ وہی ہوتا ہے جو قافیے کے مکمل لفظ کے بعد اگلا مکمل لفظ یا الفاظ ہوتے ہیں.
 
ردیف کی تبدیلی اور آپ کے مشورے کی روشنی میں

مثلِ روشن سحر نکھرتے ہیں
عشق کی راہ میں جو مرتے ہیں

یاد اس کی ہی چین دیتی ہے
جب کبھی ٹوٹ کر بکھرتے ہیں

دوستوں کو فریب دے کر ہم
کیوں بھروسے کا خون کرتے ہیں

جھوٹ ہے مصلحت کے پردے میں
سچ سے رخ پھیر کر گزرتے ہیں

ان کی طاعت عمل میں ہے ہی نہیں
دم محبت کا یونہی بھرتے ہیں

ہے یہ احساں اسی کا اے تابشؔ
کہ بگڑ کر جو ہم سنورتے ہیں
 

ابن رضا

لائبریرین
جھوٹ ہے مصلحت کے پردے میں
سچ سے رخ پھیر کر گزرتے ہیں

ان کی طاعت عمل میں ہے ہی نہیں
دم محبت کا یونہی بھرتے ہیں


ابھی بھی ان اشعار میں فاعل غائب ہے
 
بہت خوب!!!

اس کی یادیں سمیٹ لیتی ہیں
جب بھی ہم ٹوٹ کر بکھرتے ہیں
جھوٹ ہے مصلحت کے پردے میں
سچ سے رخ پھیر کر گزرتے ہیں

ان کی طاعت عمل میں ہے ہی نہیں
دم محبت کا یونہی بھرتے ہیں


ابھی بھی ان اشعار میں فاعل غائب ہے

چلیں اس پر مزید وقت صرف کرتا ہوں.
محبتوں پر ممنون ہوں.
 
کچھ تبدیلی کے ساتھ پھر حاضر ہوا ہوں۔

مثلِ روشن سحر نکھرتے ہیں
عشق کی راہ میں جو مرتے ہیں

یاد اس کی سمیٹ لیتی ہے
جب بھی ہم ٹوٹ کر بکھرتے ہیں

دوستوں کو فریب دے کر ہم
کیوں بھروسے کا خون کرتے ہیں

جھوٹ ہے مصلحت کے پردے میں
سچ کے ہم دُور سے گزرتے ہیں

ان کی طاعت عمل میں ہے ہی نہیں
ہم محبت کا دم ہی بھرتے ہیں

ہے یہ احساں اسی کا اے تابشؔ
کہ بگڑ کر جو ہم سنورتے ہیں​
 
آخری تدوین:
Top