غزل برائے اصلاح.....................

بنا کر احسن صورت کتابوں سے بنایا ہے
مزین کر سوالوں میں جوابوں سے بنایا ہے

دنو شامو زمینوں سے فلک کے نور سے جاناں
پشانی چاند مٹھی بھر ستاروں سے بنایا ہے

ہزاں کے موسموں میں بھی یہ قصے عام ٹہرے ہیں
مرے محبوب کو رب نے گلابوں سے بنایا ہے

بہت دیکھے ہیں میخانے شرابی اور ساقی بھی
زمانوں جھوم کر پی لو شرابوں سے بنایا ہے

دکھایا طور سینہ پر مگر موسی میں سقط کیا
میں جی بھر بھر کے دیکھوں گا حجابوں سے بنایا ہے

ترا ہر دور اچھا ہے جو گزرا اس سے بھی اچھا
بلندی پر بلندی پھر شراروں سے بنایا ہے

غزل بینی و نظموں کو تراشا پھر کہیں یوسف
تخیل کاغذوں پر تیرے ناموں سے بنایا ہے

توصیف یوسف........
 

الف عین

لائبریرین
پہلے تین اشعار تو سمجھ میں نہیں آ سکے۔ مطلع میں ’احسان‘ درست وزن میں نہیں۔ دوسرے شعر میں ’پشانی‘ غلط ہے، پیشانی کو پشانی نہیں کیا جا سکتا

چوتھے میں
زمانوں جھوم کر پی لو شرابوں سے بنایا ہے
واضح نہیں، زمانوں سے خطاب ہے تو ’زمانو!‘ ہونا چاہئے،
شرابوں سے کیا چیز بنائی گئی ہے، اس کی وضاحت نہیں۔ اگر واقعی کوئی چیز بن سکتی ہے تو!!!
آخری تینوں اشعار بھی واضح نہیں، مثلاً
غزل بینی و نظموں کو تراشا
غزل بینی کو کس طرح تراشا جا سکتا ہے؟
 
سر آپ کا بہت بہت شکریہ اصلاح کے لیے
اور میں نے آپ کی باتیں بھی نوٹ کر لی ہیں۔۔۔۔۔
پہلے تین اشعار تو سمجھ میں نہیں آ سکے۔ مطلع میں ’احسان‘ درست وزن میں نہیں۔ دوسرے شعر میں ’پشانی‘ غلط ہے، پیشانی کو پشانی نہیں کیا جا سکتا

چوتھے میں
زمانوں جھوم کر پی لو شرابوں سے بنایا ہے
واضح نہیں، زمانوں سے خطاب ہے تو ’زمانو!‘ ہونا چاہئے،
شرابوں سے کیا چیز بنائی گئی ہے، اس کی وضاحت نہیں۔ اگر واقعی کوئی چیز بن سکتی ہے تو!!!
آخری تینوں اشعار بھی واضح نہیں، مثلاً
غزل بینی و نظموں کو تراشا
غزل بینی کو کس طرح تراشا جا سکتا ہے؟
 
Top