غزل برائے اصلاح

تنظیم اختر

محفلین
غزل برائے اصلاح

گر تو بسا ہوا مرے اندر، نہیں ہوتا
اللہ قسم موت کا، پھر ڈر نہیں ہوتا

بہتے ہیں اگر اشک تو بہنے سے نہ روکو
دو چار سے یہ خالی سمندر نہیں ہوتا

چھوڑ کر جاتا نہیں گر تو مرا مکاں
آباد رہتا یہ کبھی کھنڈر نہیں ہوتا

ملتی ہمیں گر دیس میں دو وقت کی روٹی
پردیس میں مرنا یوں مقدر نہیں ہوتا

ہوتی جو میرے پاس ترے عشق کی دولت
شاہوں کی طرح جیتا قلندر نہیں ہوتا

تنظیم اختر
دوحہ، قطر
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اور تیسرا شعر وزن میں درست نہیں۔
بہتے ہیں اگر اشک تو بہنے سے نہ روکو
دو چار سے یہ خالی سمندر نہیں ہوتا
یہ وزن درست ہے لیکن مفہوم شاید 'سمندر خالی' سے واضح ہوتا ہے، 'خالی سمندر' سے بے معنی ہو جاتا ہے

شاہوں کی طرح جیتا قلندر نہیں ہوتا
سمجھ نہیں سکا
 
Top