غزل برائے اصلاح

سمیٹ کر خواہشیں مَیں بیٹھا تھا اک مجسّم سوال بن کر۔
کہ تن بدن میں اتر گیا پھر سے اُن کا لہجہ ملال بن کر۔
ہزار کوشش اُنھیں بھُلانے کی روز کرتا ہوں تیرگی میں۔
مگر وہ پھر بھی مجھے ستاتےہیں خواب بن کر خیال بن کر۔
یہ رات کی بات ہے انھیں بےنقاب دیکھا کھلی فضا میں۔
پڑی جو گالوں پہ اُن کے شبنم تو پھر وہ نکھرے ہلال بن کر۔
گزر گئے دن عنایتوں کے رتیں ملن کی تمام ٹھہریں۔
جدائیاں پھر سے لوٹ آئیں غریبِ جاں پر زوال بن کر۔
سنور کے آئے وہ سامنے جب سرک گئی اوڑھنی بھی سر سے۔
پھنسا لیا پھر سیاہ زلفوں نے مجھکو سجاد جال بن کر۔
 

محمد فہد

محفلین
سمیٹ کر خواہشیں مَیں بیٹھا تھا اک مجسّم سوال بن کر۔
کہ تن بدن میں اتر گیا پھر سے اُن کا لہجہ ملال بن کر۔
ہزار کوشش اُنھیں بھُلانے کی روز کرتا ہوں تیرگی میں۔
مگر وہ پھر بھی مجھے ستاتےہیں خواب بن کر خیال بن کر۔

بہت عمدہ بہترین اور لاجواب غزل

اللہ سوہنا آپ کا حامی و ناصر آمین یارب ۔
 

محمد فہد

محفلین
سنور کے آئے وہ سامنے جب سرک گئی اوڑھنی بھی سر سے۔
پھنسا لیا پھر سیاہ زلفوں نے مجھکو سجاد جال بن کر۔


یعنی حسیناؤں کی زلفوں سے بچ نا پائے آپ بھی
تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو تیرے نامہ اعمال میں تھی
 

محمد فہد

محفلین
سچے پرخلوص جذبوں سے مہکتی غزل مجھے واقعی بہت پسند آئی
اللہ سوہنا، آپ کو ان مشاغل میں آسانیاں عطاء فرمائے آپ کا قلم ایسےہی روشن لفظ علم کے بکھیرتے رہے آمین یارب ۔۔
 
سچے پرخلوص جذبوں سے مہکتی غزل مجھے واقعی بہت پسند آئی
اللہ سوہنا، آپ کو ان مشاغل میں آسانیاں عطاء فرمائے آپ کا قلم ایسےہی روشن لفظ علم کے بکھیرتے رہے آمین یارب ۔۔
بہت شکریہ فہد بھائی حوصلہ افزائی کا
 
Top