غزل برائے اصلاح : کیسی یہ عجب شکل ہے تنہائی کی

زبیر صدیقی

محفلین
السلام علیکم : کافی دن کی غیر حاضری کے بعد حاضر ہوں۔ ایک غزل پر اساتذہ کی رائے کی درخواست ہے۔ برائے مہربانی اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: ، سید عاطف علی


کیسی یہ عجب شکل ہے تنہائی کی
ساحل کو خبر ہی نہیں گہرائی کی

رُخ پر ہے، مسلسل ہے، رواں ہے دریا
اپنائی روِش اِس نے بھی سودائی کی

نظّارہ حقیقت ہے، عیاں ہے ہر دم
ہاں! دید کو حاجت رہے بینائی کی

کیوں تُم کو جھجکتے ہوئے یہ یاد نہیں
چہروں نے بھی ہم سے یہاں گویائی کی

اپنی کوئی عادت نہ بدلنا اب تُم
اب ہم کو جو عادت ہے شِکیبائی کی

ایفا نہ کیے، یوں بھی تو عاشق سمجھا
وعدے تو کیے، یوں بھی پزیرائی کی

امکاں ہی نہیں، اپنی شناسائی کا
کوشش ہی نہ کی تیری شناسائی کی

والسلام
 

زبیر صدیقی

محفلین
تکنیکی طور پر درست ہے، کچھ اشعار البتہ واضح نہیں، بطور خاص دوسرا اور چھٹا شعر
السلام علیکم۔ اشعار کی تبدیلی کے ساتھ غزل دوبارہ درج کر رہا ہوں۔ رائے سے نوازیے۔

کیسی یہ عجب شکل ہے تنہائی کی
ساحل کو خبر ہی نہیں گہرائی کی

سوچوں کہ تسلسل سے رواں ہو، رُخ پر
دریا کی روش ہے یا کہ سودائی کی


نظّارہ حقیقت ہے، عیاں ہے ہر دم
ہاں! دید کو حاجت رہے بینائی کی

کیوں تُم کو جھجکتے ہوئے یہ یاد نہیں
چہروں نے بھی ہم سے یہاں گویائی کی

اپنی کوئی عادت نہ بدلنا اب تُم
اب ہم کو جو عادت ہے شِکیبائی کی

وعدے نہ وفا کر سکے، وعدے کر کے
ایسے بھی مِری تم نے پزیرائی کی


امکاں ہی نہیں، خود سے شناسائی کا
کوشش جو نہ کی تجھ سے شناسائی کی

والسلام
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا شعر اب بھی واضح نہیں ہوا ہے۔ رخ پر رواں ہونا؟
دریا کی روش ہے یہ کہ سودائی کی
بہتر مصرع ہو گا
 

زبیر صدیقی

محفلین
دوسرا شعر اب بھی واضح نہیں ہوا ہے۔ رخ پر رواں ہونا؟
دریا کی روش ہے یہ کہ سودائی کی
بہتر مصرع ہو گا
السلام علیکم۔ مذکورہ شعر کو اس طرح باندھنے کی کوشش کی ہے، ذرا دیکھیے۔

یکسو ہے مسلسل ہے رواں ہے یہ بھی
دریا نے روش سیکھ لی سودائی کی

والسلام
 
آخری تدوین:
Top