غزل برائے اصلاح و رہنمائی

الف عین صاحب

ستم شعار یہ جور و جفا ہے کتنی دیر
مرے چمن میں یہ آہ و بکا ہے کتنی دیر

میں ان کے در پہ گیا، پھر خبر نہیں مجھ کو
کہ مجھ کو ہوش وہاں پر رہا ہے کتنی دیر

شراب نوش یہی پوچھتے ہیں حسرت سے
کہ تیرا میکدہ ساقی کھلا ہے کتنی دیر

فناپذیر وجود_جہاں میں کیا سوچوں
کہ میرے پیکر_ گل کو بقا ہے کتنی دیر

یہ اہل_عقل و خرد کیسے جان پائیں گے
مریض عشق تڑپتا رہا ہے کتنی دیر

وہ راہ_عشق کے راہی نہیں شب_ہجراں
جو کہتے ہیں کہ ابھی جاگنا ہے کتنی دیر

گزر تو جاتا ہے لیکن تجھے نہیں معلوم
غبار_راہ یہ دل دیکھتا ہے کتنی دیر

ترے ہی رنگ سے ہو گی مری بقا ممکن
وگرنہ خاک مری دیرپا ہے کتنی دیر

کسی کے عہد_وفا کو نہ دیکھو یہ دیکھو
وہ اپنی بات پہ قائم رہا ہے کتنی دیر
 
Top