غزل برائے اصلاح-نہ پوچھو کہ کس کی خطا ہے

منذر رضا

محفلین
السلام علیکم۔۔۔اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔۔۔۔
یاسر شاہ
الف عین
عظیم
محمد تابش صدیقی
فلسفی

نہ پوچھو کہ کس کی خطا ہے
مری جاں تمہیں سب پتا ہے
یہ رازِ جنوں کس کو معلوم؟
کہ پھٹ کر گریباں سلا ہے
بھلا بزم میں کون ایسا
جو تیرِ نظر سے بچا ہے
وہاں پر جفا ہے تو کیا غم
یہاں تو جواباً وفا ہے
نہ توڑو مرے دل کو ظالم
مرا دل مقامِ خدا ہے
تری اک نظر اے مرے یار
یگانہ کے غم کی دوا ہے

شکریہ!
 
السلام علیکم۔۔۔اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔۔۔۔
یاسر شاہ
الف عین
عظیم
محمد تابش صدیقی
فلسفی

نہ پوچھو کہ کس کی خطا ہے
مری جاں تمہیں سب پتا ہے
یہ رازِ جنوں کس کو معلوم؟
کہ پھٹ کر گریباں سلا ہے
بھلا بزم میں کون ایسا
جو تیرِ نظر سے بچا ہے
وہاں پر جفا ہے تو کیا غم
یہاں تو جواباً وفا ہے
نہ توڑو مرے دل کو ظالم
مرا دل مقامِ خدا ہے
تری اک نظر اے مرے یار
یگانہ کے غم کی دوا ہے

شکریہ!
السلام علیکم منذر بھائی کیا حال ہے آپ نے بہت اچھا لکھا ہے لیکن میرے خیال سے اس شعر کو دیکھ لیں
یہ رازِ جنوں کس کو معلوم؟
کہ پھٹ کر گریباں سلا ہے
اس کی نثر بھی سمجھ میں نہیں آ رہی میرے خیال سے دوسرے مصرعے کا مطلب اس طرح کا تاثر دے رہا ہے
کہ گریبان کے پھٹنے کے عمل نے گریبان سِیا ہے جو شاید ٹھیک نہیں لگ رہا
بھلا بزم میں کون ایسا
جو تیرِ نظر سے بچا ہے
اس میں پہلا مصرعہ مکمل ہونے کے باوجود مجھے تشنہ لگ رہا ہے۔
وہاں پر جفا ہے تو کیا غم
یہاں تو جواباً وفا ہے
یہ شعر بھی ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے بھرتی کا ہو
نہ توڑو مرے دل کو ظالم
مرا دل مقامِ خدا ہے
آپ کا شعر ٹھیک ہے لیکن قاری سمجھنے میں غلطی کر سکتا ہے کیونکہ مقام معنوی لحاظ سے درجہ رتبہ کو بھی کہا جاتا ہے
باقی شعر آپ کے بہت اچھے ہیں حتمی رائے تو الف عین صاحب کی ہو گی تنقید اس لئے کی ہے کہ الف عین صاحب اظہارِ خیال فرماتے ہوئے تنقیدی عبارت کی غلطیاں بھی دور فرما دیتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ابھی تو مجھے فرصت نہیں تفصیل سے دیکھنے کی ان شاء اللہ حیدرآباد واپس پہنچ کر دیکھتا ہوں تفصیل سے۔ اس وقت سان فرانسسکو ایر پورٹ پر فلائٹ کے لیے تیار ہوں
 

یاسر شاہ

محفلین
بھائی تکنیکی اعتبار سے تو درست ہے غزل -بس اس مصرع "بھلا بزم میں کون ایسا" میں "ہے" چاہیے - غزل میں البتہ خیال آفرینی کافقدان ہے -دو اشعار ہیں جن میں کوئی ڈھنگ کا مضمون بندھا ہے اور وہ ہیں :

یہ رازِ جنوں کس کو معلوم؟
کہ پھٹ کر گریباں سلا ہے


نہ توڑو مرے دل کو ظالم
مرا دل مقامِ خدا ہے

ان میں بھی موخر الذکرشعر کا مضمون کوئی نئی بات نہیں ،اور شعرا نے بھی باندھا ہے -

آپ اس سے کہیں بہتر غزل کہہ سکتے ہیں -
 
بھائی تکنیکی اعتبار سے تو درست ہے غزل -بس اس مصرع "بھلا بزم میں کون ایسا" میں "ہے" چاہیے - غزل میں البتہ خیال آفرینی کافقدان ہے -دو اشعار ہیں جن میں کوئی ڈھنگ کا مضمون بندھا ہے اور وہ ہیں :

یہ رازِ جنوں کس کو معلوم؟
کہ پھٹ کر گریباں سلا ہے


نہ توڑو مرے دل کو ظالم
مرا دل مقامِ خدا ہے

ان میں بھی موخر الذکرشعر کا مضمون کوئی نئی بات نہیں ،اور شعرا نے بھی باندھا ہے -

آپ اس سے کہیں بہتر غزل کہہ سکتے ہیں -
شکریہ یاسر بھائی
 

الف عین

لائبریرین
غزل واقعی ہلکی ہے
یہ رازِ جنوں کس کو معلوم؟
کہ پھٹ کر گریباں سلا ہے
ویسے درست ہے لیکن روانی کی کمی ہے کہنا یہ چاہتے ہیں کہ گریبان پھٹ چکا تھا جنوں میں لیکن اب سل چکا ہے تو لوگ خرد مند سمجھتے ہیں۔ 'سل چکا' ہونے سے بات واضح ہوتی ابھی تو عجز بیان کہا جا سکتا ہے

بھلا بزم میں کون ایسا
جو تیرِ نظر سے بچا ہے
... اس میں بھی 'ہے' کی کمی سے بات نامکمل لگتی ہے
بھلا بزم میں کون ہے وہ
جو تیرِ نظر سے بچا ہے
شاید بہتر ہو
تری اک نظر اے مرے یار
یگانہ کے غم کی دوا ہے
... مرے یار بھرتی کا ہی نہیں بلکہ شتر گربہ بھی پیدا کر دیتا ہے
تری اک نظر میں وہ ہے جو
ایک متبادل
باقی درست ہیں
 
Top