غزل برائے اصلاح: مسلسل ۲

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ مسلسل (۲) پیش کر رہا ہوں

رہی چھپے ہوئے ہاتھوں میں میری باگ مسلسل
جدھرکو چاہیں مجھے موڑیں ہیں وُہ گھاگ مسلسل

خبر یہ ہے کہ ملے گا کہیں سے لاش کی صورت
خلاف ظلم کے جو گا رہا ہے راگ مسلسل

نہیں ہے خاک سے پیدا ہوئے میں خاک کی تاثیر
لگائے رکھتا ہے انسان ہر جا آگ مسلسل

کوئی عذاب اُترنے کو ہے مزید بھی مُجھ پر
کریں جو شور سرِ شام در پہ کاگ مسلسل

ملے غریب کو کیسے یہاں دو وقت کی روٹی
ادھر تو مال پہ بیٹھے ہیں شیش ناگ مسلسل

مخاصمت کی بلا شہر میں ہے گھومتی پھرتی
رہےہیں خوف سے یاں لوگ سب ہی جاگ مسلسل

عقب میں تیرے ہے مقبول مفلسی کا درندہ
نہیں ہے بھوک سے مرنا اگر تو بھاگ مسلسل
 

الف عین

لائبریرین
پہلوانِ سخن بننے کی کوشش کر رہے ہو کیا؟ ایسی زمینوں پہ مجھے ناسخ یاد آتے ہیں
وہ پہلوانِ عشق ہوں ناسخ کہ بعد مرگ
برسوں مرے مزار پہ مگدر گھما کیے
خیر اب سنجیدگی سے یہ کہوں کہ ایسے قافیے زبردستی ہی لانے پڑتے ہیں اس لئے غزل میں ہمیشہ آورد کی ہی کیفیت ہوتی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
رہی چھپے ہوئے ہاتھوں میں میری باگ مسلسل
جدھرکو چاہیں مجھے موڑیں ہیں وُہ گھاگ مسلسل
... 'میں میری' میں تنافر ہے
موڑے ہیں درست ہو گا، موڑیں نہیں
چھپے ہوئے ہاتھ کی جگہ نا معلوم یا کچھ اور واحد لفظ بہتر ہو گا

خبر یہ ہے کہ ملے گا کہیں سے لاش کی صورت
خلاف ظلم کے جو گا رہا ہے راگ مسلسل
.. درست

نہیں ہے خاک سے پیدا ہوئے میں خاک کی تاثیر
لگائے رکھتا ہے انسان ہر جا آگ مسلسل
... مرے خیال میں آگ قافیہ لانے سے اس کے پچھلے لفظ کا آخری حرف ساقط کرنا ہو گا، جو اچھا نہیں لگتا۔ یہاں 'جا آگ' مسئلہ کر رہا ہے

کوئی عذاب اُترنے کو ہے مزید بھی مُجھ پر
کریں جو شور سرِ شام در پہ کاگ مسلسل
... یہ زبردستی کا قافیہ نہیں!
کریں اچھا نہیں لگ رہا،
جو کر رہے ہیں سر شام شور کاگ مسلسل

ملے غریب کو کیسے یہاں دو وقت کی روٹی
ادھر تو مال پہ بیٹھے ہیں شیش ناگ مسلسل
.. 'دُوقت' اچھا نہیں لگ رہا

مخاصمت کی بلا شہر میں ہے گھومتی پھرتی
رہےہیں خوف سے یاں لوگ سب ہی جاگ مسلسل..
... یہ بھی برائے قافیہ لگ رہا ہے، ویسے ٹھیک ہے

عقب میں تیرے ہے مقبول مفلسی کا درندہ
نہیں ہے بھوک سے مرنا اگر تو بھاگ مسلسل
.. درست
 

مقبول

محفلین
پہلوانِ سخن بننے کی کوشش کر رہے ہو کیا؟ ایسی زمینوں پہ مجھے ناسخ یاد آتے ہیں
وہ پہلوانِ عشق ہوں ناسخ کہ بعد مرگ
برسوں مرے مزار پہ مگدر گھما کیے
خیر اب سنجیدگی سے یہ کہوں کہ ایسے قافیے زبردستی ہی لانے پڑتے ہیں اس لئے غزل میں ہمیشہ آورد کی ہی کیفیت ہوتی ہے۔
محترم الف عین صاحب
ہاہاہا
سر، میں نے آپ کے تبصرے کا بہت لطف اٹھایا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مجھے اس غزل کے ساتھ کافی عرصہ پہلوانی کرنا پڑی بلکہ اس نے تو مجھے تقریباً چاروں شانے چت کر دیا تھا اور میں اسے ترک کرنے کا سوچ رہاُتھا لیکن پھر خیال آیا کہ شکست کھانا تو اچھی بات نہیں ہے اور کچھ ہاتھ پاؤں مار کر اس کے نیچے سے نکل گیا ۔ کوشش کی کسی نہ کسی طرح اسے ایسی شکل میں لا سکوں کہ اصلاح کے لیے پیش کیا جا سکے۔

لیکن ایسا نہیں ہے کہ میں نے ارادتاً (معذرت، مجھے معلوم نہیں کہ “ت” والا “ہ” کی بورڈ میں کہاں ملے گا) اس قافیہ کا استعمال کیا ۔ “باگ، بھاگ۔۔۔ والے کچھ مصرعے خود بخود ذہن میں آ گئے تو پھر میں نے اس پر کام شروع کیا۔ پھرسمجھیے، میں نے اپنے آپ کو ایک امتحان میں ڈال دیا
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
سر، ہو سکتا اس غزل میں کہیں قافیہ پیمائی کا تاثر ملتا ہو لیکن ہر شعر کا کسی نہ کسی میرے ذاتی مشاہدے یا کہیں تاریخ سے تعلق ہے۔ میں یہاں ہر شعر کا پسِ منظر پیش کرتا ہوں

درستگی بعد میں کروں گا کیونکہ اس کے لیے کچھ وقت لگانا پڑے گا۔

رہی چھپے ہوئے ہاتھوں میں میری باگ مسلسل
جدھرکو چاہیں مجھے موڑیں ہیں وُہ گھاگ مسلسل
... 'میں میری' میں تنافر ہے
موڑے ہیں درست ہو گا، موڑیں نہیں
چھپے ہوئے ہاتھ کی جگہ نا معلوم یا کچھ اور واحد لفظ بہتر ہو گا
جی، اس پر میں پہلے بھی کافی کوشش کر چکا ہوں ۔ ابھی اور کرتا ہوں۔
اس شعر کے پسِ منظر میں وہ ممالک ہیں جو سپر پاور یہ قرض خواہ ممالک کی مرضی کے بغیر پر بھی نہیں مار سکتے ۔ حتیٰ کہ کسی اور ملک سے تعلقات بھی بنا سکتے
خبر یہ ہے کہ ملے گا کہیں سے لاش کی صورت
خلاف ظلم کے جو گا رہا ہے راگ مسلسل

یہ شعر صحافیوں کے قتل سے متعلق ہے ۔ ویسے تو یہ گاؤں کی سطح پر بھی ہوتا ہے
نہیں ہے خاک سے پیدا ہوئے میں خاک کی تاثیر
لگائے رکھتا ہے انسان ہر جا آگ مسلسل
... مرے خیال میں آگ قافیہ لانے سے اس کے پچھلے لفظ کا آخری حرف ساقط کرنا ہو گا، جو اچھا نہیں لگتا۔ یہاں 'جا آگ' مسئلہ کر رہا ہے

جی، اسے درست کرنے کی کوشش کروں گا
جہاں تک پسِ منظر کا تعلق ہے تو انسانی تاریخ جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے شاید ہی کوئی وقفہ آتا ہو
کوئی عذاب اُترنے کو ہے مزید بھی مُجھ پر
کریں جو شور سرِ شام در پہ کاگ مسلسل
... یہ زبردستی کا قافیہ نہیں!
کریں اچھا نہیں لگ رہا،
جو کر رہے ہیں سر شام شور کاگ مسلسل

جی، اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہوں
اس شعر کا ایک حقیقی پسِ منظر ہے وُہ یوں کہ میرے اپنے گاؤں میں اگر کسی گھر کی دیوار پر کوّے صبح آ کر کائیں کائیں کرتے تھے تو سمجھا جاتا تھا کہ کوئی مہمان آنے والا ہے اور اگر شام کو کرتے تھے تو سمجھا جاتا تھا کوئی نحوست آنے والی ہے


ملے غریب کو کیسے یہاں دو وقت کی روٹی
ادھر تو مال پہ بیٹھے ہیں شیش ناگ مسلسل
.. 'دُوقت' اچھا نہیں لگ رہا

اسے درست کرتا ہوں
یہ تو سب جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں عموماً اور ہمارے ملکوں میں خصوصاً دولت کی تقسیم کا کیا حال ہے

مخاصمت کی بلا شہر میں ہے گھومتی پھرتی
رہےہیں خوف سے یاں لوگ سب ہی جاگ مسلسل..
... یہ بھی برائے قافیہ لگ رہا ہے، ویسے ٹھیک ہے

یہ تو ماضی بعید میں بہت علاقوں میں ہوتا رہا ہے جب بھی نسلی، لسانی، مذہبی۔۔ بنیادوں پر فسادات پھیلے ۔ زیادہ دور نہ جائیں تو سربیا| بوسنیا کی مثال بھی موجود ہے۔ ماضی قریب میں تو ہمارے اپنے ملک کا سب سے بڑا شہر بھی قریباً ایسی ہی کیفیت میں تھا اگر تھوڑا شاعری مبالغہ کا بھی سہارا لے لیا جائے
عقب میں تیرے ہے مقبول مفلسی کا درندہ
نہیں ہے بھوک سے مرنا اگر تو بھاگ مسلسل
یہ شعر تو مجھ پر ہی لاگو ہوتا ہے اور میری اپنی ذہنی کیفیت کا عکاس ہے
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
سر، آپ کے تبصرے کے بعد کچھ ہمت پکڑی تو پھر سے کچھ سوچنا شروع کیا اور ابھی یہاں تک پہنچ سکا ہوں ۔

ہیں خفیہ ہاتھ، ہلائیں جو میری باگ مسلسل
یا
جو خفیہ ہاتھ ہلاتے ہیں میری باگ مسلسل
جدھرکو چاہیں مجھے موڑے ہیں وُہ گھاگ مسلسل

خبر یہ ہے کہ ملے گا کہیں سے لاش کی صورت
خلاف ظلم کے جو گا رہا ہے راگ مسلسل

نہیں ہے خاک سے پیدا ہوئے میں خاک کی تاثیر
لگائے پھرتا ہے چاروں طرف یہ آگ مسلسل

کوئی عذاب اُترنے کو ہے مزید بھی مُجھ پر
جو شام ہوتے ہی کرتے ہیں شور کاگ مسلسل

مٹائے بھوک تو کیسے یہاں غریب بھی اپنی
ادھر تو مال پہ بیٹھے ہیں شیش ناگ مسلسل

مخاصمت کی بلا شہر میں ہے گھومتی پھرتی
اجڑ رہے ہیں یوں اس شہر میں سہاگ مسلسل

عقب میں تیرے ہے مقبول مفلسی کا درندہ
نہیں ہے بھوک سے مرنا اگر تو بھاگ مسلسل
 

الف عین

لائبریرین
باقی تو ٹھیک ہے
بعد میں غور کیا کہ مطلع میں گھاگ کے ساتھ مسلسل بہت دور جا پڑا ہے۔ یعنی 'وہ مسلسل گھاگ ہیں' کا مطلب نکل رہا ہے، 'وہ گھاگ مسلسل موڑ رہے ہیں' ہونا تھا۔ یعنی 'وہ' کی نشست سے 'وہ مسلسل گھاگ ہیں' لگتا ہے، اس پر مزید غور کر لو
 

مقبول

محفلین
باقی تو ٹھیک ہے
بعد میں غور کیا کہ مطلع میں گھاگ کے ساتھ مسلسل بہت دور جا پڑا ہے۔ یعنی 'وہ مسلسل گھاگ ہیں' کا مطلب نکل رہا ہے، 'وہ گھاگ مسلسل موڑ رہے ہیں' ہونا تھا۔ یعنی 'وہ' کی نشست سے 'وہ مسلسل گھاگ ہیں' لگتا ہے، اس پر مزید غور کر لو
محترم الف عین صاحب

سر، اب دیکھیے
وُہ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے میری باگ مسلسل
جدھر کو چاہے وہ موڑے مجھے ہے گھاگ مسلسل
یا
جدھرکو چاہے وُہ موڑے ہےمجھ کو گھاگ مسلسل
 
Top