غزل برائے اصلاح::رات ہونے کو ہے اب رات کدھر جائے گا

اساتذۂ اکرم سے اصلاح کی گزاش ہے برائے مہربانی اصلاح فرمائیں
سر الف عین ، عظیم

نہ فقط یہ کہ رگ و پے میں اتر جائے گا
عشق اک زہر ہے پینے سے تو مر جائے گا

دن تو گزرا ہے ترا صحرا نوردی میں مگر
رات ہونے کو ہے اب رات کدھر جائے گا

غم نہ کر اے دلِ ویراں کہ یہ کچھ روز کے بعد
ہجر کا دریا جو چڑھا ہے اتر جائے گا

قتل کرنا مجھے مقصد نہ تھا ظالم کا مگر
تھا گماں اس کو کہ اس طرح یہ ڈر جائے گا

روز ہر روز کے مرنے سے تو یہ بہتر ہے
اک ہی دن تو غمِ ہستی سے گزر جائے گا

تو نے اب جانا نہیں ان کی گلی میں نیر
عشق ہوگا ترا بدنام اگر جائے گا
 

الف عین

لائبریرین
نہ فقط یہ کہ رگ و پے میں اتر جائے گا
عشق اک زہر ہے پینے سے تو مر جائے گا
... دوسرے مصرعے میں 'تو' ضمیر ہی ہے نا؟
اس صورت میں بہتر یوں ہو گا
عشق وہ زہر ہے، تو پینے سے......
پہلے میں بھی 'نہ فقط' محاورہ نہیں، 'نہ صرف' درست محاورہ ہے
یوں نہیں صرف رگ و......

دن تو گزرا ہے ترا صحرا نوردی میں مگر
رات ہونے کو ہے اب رات کدھر جائے گا
... دونوں جگہ 'رات' اچھا نہیں
اب اور کدھر....
کیا جا سکتا ہے

غم نہ کر اے دلِ ویراں کہ یہ کچھ روز کے بعد
ہجر کا دریا جو چڑھا ہے اتر جائے گا
... چڑھا کو کیا چڑ۔ ھا تقطیع کر رہے ہو؟
ہجر کا دریا اور اس کا چڑھنا بھی محاورہ کے خلاف ہے

قتل کرنا مجھے مقصد نہ تھا ظالم کا مگر
تھا گماں اس کو کہ اس طرح یہ ڈر جائے گا
... درست

روز ہر روز کے مرنے سے تو یہ بہتر ہے
اک ہی دن تو غمِ ہستی سے گزر جائے گا
... شعر واضح نہیں ہوا، غم ہستی سے گزرنا بھی محاورہ نہیں

تو نے اب جانا نہیں ان کی گلی میں نیر
عشق ہوگا ترا بدنام اگر جائے گا
... درست پنجابی اردو کے مطابق، دہلی کی اردو میں
تجھ کو اب جانا نہیں.....
 
نہ فقط یہ کہ رگ و پے میں اتر جائے گا
عشق اک زہر ہے پینے سے تو مر جائے گا
... دوسرے مصرعے میں 'تو' ضمیر ہی ہے نا؟
اس صورت میں بہتر یوں ہو گا
عشق وہ زہر ہے، تو پینے سے......
پہلے میں بھی 'نہ فقط' محاورہ نہیں، 'نہ صرف' درست محاورہ ہے
یوں نہیں صرف رگ و......

دن تو گزرا ہے ترا صحرا نوردی میں مگر
رات ہونے کو ہے اب رات کدھر جائے گا
... دونوں جگہ 'رات' اچھا نہیں
اب اور کدھر....
کیا جا سکتا ہے

غم نہ کر اے دلِ ویراں کہ یہ کچھ روز کے بعد
ہجر کا دریا جو چڑھا ہے اتر جائے گا
... چڑھا کو کیا چڑ۔ ھا تقطیع کر رہے ہو؟
ہجر کا دریا اور اس کا چڑھنا بھی محاورہ کے خلاف ہے

قتل کرنا مجھے مقصد نہ تھا ظالم کا مگر
تھا گماں اس کو کہ اس طرح یہ ڈر جائے گا
... درست

روز ہر روز کے مرنے سے تو یہ بہتر ہے
اک ہی دن تو غمِ ہستی سے گزر جائے گا
... شعر واضح نہیں ہوا، غم ہستی سے گزرنا بھی محاورہ نہیں

تو نے اب جانا نہیں ان کی گلی میں نیر
عشق ہوگا ترا بدنام اگر جائے گا
... درست پنجابی اردو کے مطابق، دہلی کی اردو میں
تجھ کو اب جانا نہیں.....
جی سر اصلاح کیلئے بہت شکریہ
میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں
 
سر دیکھئے اب یہ اشعار ٹھیک ہو گئے

یوں نہیں صرف رگ و پے میں اتر جائے گا
عشق وہ زہر ہے، تو پینے سے مر جائے گا
دن تو گزرا ہے ترا صحرا نوردی میں مگر
رات ہونے کو ہے اب اور کدھر جائے گا
قتل کرنا مجھے مقصد نہ تھا ظالم کا مگر
تھا گماں اس کو کہ اس طرح یہ ڈر جائے گا
تجھ کو اب جانا نہیں ان کی گلی میں نیر
عشق ہوگا ترا بدنام اگر جائے گا
 

الف عین

لائبریرین
درست ہو گئے اشعار، لیکن اوقاف ضرور استعمال کیا کریں۔ جیسے
عشق ہوگا ترا بدنام اگر جائے گا
کو واضح کرتے ہوئے اس طرح لکھا جائے
عشق ہوگا ترا بدنام، اگر جائے گا
 
Top