غزل برائے اصلاح :: جانے کیوں اضطراب میں ہم ہیں

السلام علیکم استادِ محترم جناب الف عین صاحب امید ہے کہ اپ خیر و عافیت سے ہوں گے
بہت دنوں کے بعد محفل پر حاضر ہوا ہوں ایک چھوٹی سی غزل اصلاح کیلئے پیش کرتا ہوں برائے مہربانی اصلاح فرمائیں

چاہتوں کے سراب میں ہم ہیں
اک مسلسل عذاب میں ہم ہیں

یوں تو کہنے کو ہم بھی ہیں بیدار
گرچہ غفلت میں خواب میں ہم ہیں

مشکلیں اب ہیں زادِ رہ اپنی
گویا عہدِ شباب میں ہم ہیں

وجہ کچھ بھی نہیں مگر پھر بھی
جانے کیوں اضطراب میں ہم ہیں

وقت رخصت بھی آگیا نیر
گم ابھی انتخاب میں ہم ہیں

شکریہ ۔۔
 
آخری تدوین:
عزیزی نیر صاحب، آداب۔
آپ کے ایک ہم نام سینئر شاعر جناب خورشید الحسن نیرؔ صاحب، جو سعودیہ میں مقیم ہیں، سے اردو انجمن کے توسط سے واقفیت رہی ہے سو آپ کا نام دیکھ کر ایک لمحے کو ماتھا ٹھنکا کہ خورشید صاحب کی غزل اس گوشے میں کیا کر رہی ہے :)
آپ سے پہلی بار بات ہو رہی ہے، اور یہ آپ کی بدقسمتی کہ آپ ہماری فرصت کے تازہ شکار بن رہے ہیں :) خیر، مزاح برطرف، میری معروضات کو برادرانہ مشورہ ہی سمجھئے۔

چاہتوں کے سراب میں ہم ہیں
اک مسلسل عذاب میں ہم ہیں

چاہتوں کا سراب؟ بات کچھ بن نہیں رہی صاحب، جبکہ دوسرا مصرعہ کافی جاندار ہے اور اس پر اس سے بہتر گرہ لگ سکتی ہے۔

یوں تو کہنے کو ہم بھی ہیں بیدار
گرچہ غفلت میں خواب میں ہم ہیں

درست محاورہ خوابِ غفلت میں ہونا ہے۔ ’’غفلت میں، خواب میں‘‘ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ (شعر لکھتے وقت اوقاف کی لازماً رعایت رکھیں، کیونکہ اس طرح قاری کا آپ کے ذہن میں موجود مفہوم تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے)۔

مشکلیں اب ہیں زادِ رہ اپنی
گویا عہدِ شباب میں ہم ہیں

مشکلیں کیا عہدِ شباب کا لازمی جزو ہیں؟؟؟ شباب تو عموماً بےفکری کا زمانہ ہوتا ہے، سو جو ربط آپ قائم کرنا چاہ رہے ہیں وہ اتنا مظبوط نہیں۔ شعراء جوانی کو عموماً عہد معصیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ جیسے جناب شمیمؔ جےپوری صاحب کا مشہور شعر ہے

عظیم تر ہے عبادت شباب کی، لیکن
یہی گناہ کا موسم ہے، کیا کیا جائے!

سو آپ بھی انہی خطوط پر گرہ لگانے کی کوشش کریں۔

وجہ کچھ بھی نہیں مگر پھر بھی
جانے کیوں اضطراب میں ہم ہیں

اگرچہ بیان مبہم ہے، تاہم ہم یہ گمان کرلیتے ہیں کہ یہ ابہام شاعر نے جان بوجھ کر چھوڑا ہے۔ ویسے ایک گرہ ہمارے ذہن میں آئی ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟

توڑ کر ایک رشتہِ بے نام
آج تک اضطراب میں ہم ہیں

وقت رخصت بھی آگیا نیر
گم ابھی انتخاب میں ہم ہیں

مقطع تشنۂ الفاظ معلوم ہوتا ہے، اور الفاظ کی نشست بھی بہتر ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں مقطعے کی بابت اگر آپ کا مافی الضمیر نثر میں بیان کیا جائے تو وہ اس طرح ہوگا کہ ’’وقتِ رخصت آ بھی گیا نیرؔ، اور تم ابھی تک انتخاب کرنے میں مگن ہو‘‘۔

آپ اب یہاں خود دیکھیں شعر کے الفاظ کیا یہ مفہوم مکمل طور پر ادا کر پارہے ہیں؟ خصوصاً مصرعہ ثانی میں ’تک‘ کی کمی کافی کھل رہی ہے۔

امید ہے آپ نے میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ اپنے شکستہ خیالات لکھتے ہوئے پیشِ نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ جو تاثر میرے ذہن میں قائم ہو رہا ہے، اگر اس میں کوئی سقم ہو تو اساتذہ کی نظر میں آجائے۔

دعاگو،
راحلؔ
 
Top