غزل برائے اصلاح : اِک یہی کاروبار ہی ہے فقط

زبیر صدیقی

محفلین
السلام علیکم اساتذہ صاحبان۔ ایک غزل پیشِ خدمت ہے، اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ (میری بیٹی ہانگ کانگ میں پڑھ رہی ہے مگر کرونا کی وجہ سے چین کا ویزہ نہیں مل رہا تو ملاقات کا امکان نہیں ہے۔ یہی مضمون ہے)
الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: سید عاطف علی محمد خلیل الرحمٰن

اِک یہی کاروبار ہی ہے فقط
بس ترا انتظار ہی ہے فقط

حاصلِ عشق کیوں فقط ہے خزاں
آرزو کیوں بہار ہی ہے فقط

بے خودی کا سبب نہیں کچھ اور
ایک تیرا خمار ہی ہے فقط

رات اور دن نے حالتیں بدلیں
اور دل بے قرار ہی ہے فقط

فرصتِ آہ بھی زباں کو کہاں
اب وہاں یار یار ہی ہے فقط

بن ترے وقت بس گزرتا ہے
عمر بس اِک شمار ہی ہے فقط

آ بھی جاؤ کہ بار بار نہیں
زندگی ایک بار ہی ہے فقط

والسلام
 

الف عین

لائبریرین
ویسے تو ردیف میں 'ہی ہے' کی وجہ سے تنافر کا عیب ہے لیکن میرے خیال میں اس سے درگزر کءا جا سکتا ہے
اور تو کوئی سقم نظر نہیں آ رہا
اللہ کرے کہ جلد ہی بیٹی سے ملاقات ہو سکے، آمین
 

زبیر صدیقی

محفلین
ویسے تو ردیف میں 'ہی ہے' کی وجہ سے تنافر کا عیب ہے لیکن میرے خیال میں اس سے درگزر کءا جا سکتا ہے
اور تو کوئی سقم نظر نہیں آ رہا
اللہ کرے کہ جلد ہی بیٹی سے ملاقات ہو سکے، آمین
بہت شکریہ آپ کی نشاندہی کا جو کہ یقیناً ہے۔ میرا ذہن اس طرف نہیں گیا تھا۔ اور ان شااللّہ اس کا خیال رکھوں گا۔

دعا کا شکریہ۔ اللّہ اسے قبول فرمائے۔ آمین۔

والسلام
 
Top