میر غزل: بات کیا آدمی کی بن آئی

بات کیا آدمی کی بن آئی
آسماں سے زمین نپوائی

چرخِ زن اس کے واسطے ہے مدام
ہو گیا دن تمام رات آئی

ماہ و خورشید و ابر و باد سبھی
اس کی خاطر ہوئے ہیں سودائی

کیسے کیسے کیے تردد جب
رنگ رنگ اس کو چیز پہنچائی

اس کو ترجیح سب کے اوپر دی
لطفِ حق نے کی عزت افزائی

حیرت آتی ہے اس کی باتیں دیکھ
خودسری، خودستائی، خودرائی

شکر کے سجدوں میں یہ واجب تھا
یہ بھی کرتا سدا جبیں سائی

سو تو اس کی طبیعتِ سرکش
سر نہ لائی فرو کہ ٹک لائی

میرؔ ناچیز، مشتِ خاک اللہ
اُن نے یہ کبریا کہاں پائی

٭٭٭
میر تقی میرؔ
 
Top