غزل: ایسا نہیں کسی نے تقاضا نہیں کیا (غزل)

عزیزانِ من، آداب!
بڑے دن بعد کسی تازہ غزل کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔۔۔ امید ہے کہ احباب اپنی گراں قدر آرا سے ضرور نوازیں گے۔

دعاگو،
راحلؔ۔


ایسا نہیں کسی نے تقاضا نہیں کیا
بس لَوٹنا انا نے گوارا نہیں کیا

ہم ’’دل سے دل کو راہ‘‘ پہ تکیہ کیے رہے
اور ان کو غم یہ، ہم نے اشارہ نہیں کیا

کچھ دیر کھیل لیتے کھلونا ہی جان کر
دل توڑ کر پر آپ نے اچھا نہیں کیا

نومیدیوں کے بیچ یہ اب سوچتا ہے دل
کیوں اعتبارِ وعدۂ فردا نہیں کیا!

بیٹھے ہیں تیری واپسی کی آس میں وہیں
ہم نے کسی سراب کا پیچھا نہیں کیا

دامن کے تار و پود گو یکسر بکھر گئے
آخر تلک پہ ہم نے یہ میلا نہیں کیا!

مجھ کو ڈرا رہا ہے خدا کی پکڑ سے وہ
جس نے خدا کے نام پہ کیا کیا نہیں کیا!

رودادِ جورِ اہلِ قضا لکھتے کیا، سو بس
صفحے سیاہ کرنا گوارا نہیں کیا!

خنجر تو آستیں میں چھپا لیجیے حضور
ورنہ کہیں گے ہم نے بھروسہ نہیں کیا!

راحلؔ میاں ہیں آج دروں گورِ بے نشان
چپ چاپ جو دی جان، تماشا نہیں کیا!


 

عاطف ملک

محفلین
نومیدیوں کے بیچ یہ اب سوچتا ہے دل
کیوں اعتبارِ وعدۂ فردا نہیں کیا!

بیٹھے ہیں تیری واپسی کی آس میں وہیں
ہم نے کسی سراب کا پیچھا نہیں کیا

مجھ کو ڈرا رہا ہے خدا کی پکڑ سے وہ
جس نے خدا کے نام پہ کیا کیا نہیں کیا!
بہت خوب راحل بھیا۔۔۔۔عمدہ اشعار ہیں۔
داد قبول کیجیے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل کہی ہے راحل
ایک دو اشعار ذرا روانی میں کمزور ہیں، جیسے
بیٹھے ہیں تیری واپسی کی آس میں وہیں
ہم نے کسی سراب کا پیچھا نہیں کیا

دامن کے تار و پود گو یکسر بکھر گئے
آخر تلک پہ ہم نے یہ میلا نہیں کیا!
 
اچھی غزل کہی ہے راحل
ایک دو اشعار ذرا روانی میں کمزور ہیں، جیسے
بیٹھے ہیں تیری واپسی کی آس میں وہیں
ہم نے کسی سراب کا پیچھا نہیں کیا

دامن کے تار و پود گو یکسر بکھر گئے
آخر تلک پہ ہم نے یہ میلا نہیں کیا!
بہت شکریہ استاذی ... آپ کی توجہ اور داد و تحسین کے لیے از حد ممنون و متشکر ہوں...
سراب والے شعر میں تو میں نے بھی محسوس کی تھی. اصل میں پہلے مصرع کچھ اور تھا اور اس میں بھی لوٹنے کا لفظ استعمال کیا تھا ... پھر لگا کہ اس طرح مطلع کا تاثر نہ زائل ہو تو بدل دیا.
دامن والے شعر میں شاید آپ کا اشارہ دوسرے مصرعے کی طرف ہے. میں اس کو دیکھتا ہوں. حالانکہ عروض نے تو اس کو پورے 10 نمبر دے دیے تھے :)
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ایسا نہیں کسی نے تقاضا نہیں کیا
بس لَوٹنا انا نے گوارا نہیں کیا

ہم ’’دل سے دل کو راہ‘‘ پہ تکیہ کیے رہے
اور ان کو غم یہ، ہم نے اشارہ نہیں کیا

کچھ دیر کھیل لیتے کھلونا ہی جان کر
دل توڑ کر پر آپ نے اچھا نہیں کیا

نومیدیوں کے بیچ یہ اب سوچتا ہے دل
کیوں اعتبارِ وعدۂ فردا نہیں کیا!

بیٹھے ہیں تیری واپسی کی آس میں وہیں
ہم نے کسی سراب کا پیچھا نہیں کیا

دامن کے تار و پود گو یکسر بکھر گئے
آخر تلک پہ ہم نے یہ میلا نہیں کیا!

مجھ کو ڈرا رہا ہے خدا کی پکڑ سے وہ
جس نے خدا کے نام پہ کیا کیا نہیں کیا!

رودادِ جورِ اہلِ قضا لکھتے کیا، سو بس
صفحے سیاہ کرنا گوارا نہیں کیا!

خنجر تو آستیں میں چھپا لیجیے حضور
ورنہ کہیں گے ہم نے بھروسہ نہیں کیا!

راحلؔ میاں ہیں آج دروں گورِ بے نشان
چپ چاپ جو دی جان، تماشا نہیں کیا!
بہت خوب راحل بھائی۔ بہت عمدہ غزل ہے۔
ڈھیروں داد قبول فرمائیے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ آمین۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت شکریہ استاذی ... آپ کی توجہ اور داد و تحسین کے لیے از حد ممنون و متشکر ہوں...
سراب والے شعر میں تو میں نے بھی محسوس کی تھی. اصل میں پہلے مصرع کچھ اور تھا اور اس میں بھی لوٹنے کا لفظ استعمال کیا تھا ... پھر لگا کہ اس طرح مطلع کا تاثر نہ زائل ہو تو بدل دیا.
دامن والے شعر میں شاید آپ کا اشارہ دوسرے مصرعے کی طرف ہے. میں اس کو دیکھتا ہوں. حالانکہ عروض نے تو اس کو پورے 10 نمبر دے دیے تھے :)
پہلے شعر میں واپسی کی ی کا اسقاط اچھا نہیں لگا
اور دامن والے شعر کے دوسرے مصرعے میں 'آخر تلک پہ'، یہاں پہ بمعنی مگر کی جگہ بمعنی پر بھی لگتا ہے، اور تلک تو ظاہر ہے کہ متروک ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہم ’’دل سے دل کو راہ‘‘ پہ تکیہ کیے رہے
اور ان کو غم یہ، ہم نے اشارہ نہیں کیا
واہ راحل بھائی ، کیا عمدہ بیان ہے ۔
البتہ کہیں کہیں نشست کمزور نظر آرہی ہے ۔جیسا کہ اعجاز بھائی نے اشارہ کیا ۔
اس شعر میں مجھے لگا کہ ان کو غم کے بجائے ،ان کو گلاکہ، ہو تو زیادہ بہتر ہو جائے ۔
چپ چاپ والے مصرع میں بھی بندش میں ضعف ہے ۔
ذرا دھیمی آنچ پر اور رکھیں ۔ ورنہ کمال غزل ہے ۔
 
اور دامن والے شعر کے دوسرے مصرعے میں 'آخر تلک پہ'، یہاں پہ بمعنی مگر کی جگہ بمعنی پر بھی لگتا ہے، اور تلک تو ظاہر ہے کہ متروک ہے۔
جی استاذی، اس کو دیکھتا ہوں ۔۔۔ تلک پر قبلہ ظہیر بھائی بھی ٹوک چکے ہیں، میں ہی بس اس سے چمٹا ہوا ہوں کہ مجھے شعر میں اس کا استعمال بہت بھلا لگتا ہے ۔۔۔ ویسے تو ہمارے خاندان کے بزرگ ابھی بھی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں ۔۔۔ میں بھی عمداً اس کو دوبارہ رواج دینے کی نیت سے گاہے بگاہے استعمال کرتا رہتا ہوں :)
 
واہ راحل بھائی ، کیا عمدہ بیان ہے ۔
البتہ کہیں کہیں نشست کمزور نظر آرہی ہے ۔جیسا کہ اعجاز بھائی نے اشارہ کیا ۔
اس شعر میں مجھے لگا کہ ان کو غم کے بجائے ،ان کو گلاکہ، ہو تو زیادہ بہتر ہو جائے ۔
چپ چاپ والے مصرع میں بھی بندش میں ضعف ہے ۔
ذرا دھیمی آنچ پر اور رکھیں ۔ ورنہ کمال غزل ہے ۔
جزاک اللہ عاطف بھائی، داد و پذیرائی کے لیے ممنون و متشکر ہوں ۔۔۔ آپ کے اور استادِ محترم کے اٹھائے نکات کی روشنی میں ان شاءاللہ ضرور ترمیم و تصیح کروں گا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ وا! بہت خوب راحل بھائی ! اچھی غزل ہے ۔ تغزل بھی ہے اور غزل کے روایتی مضامین بھی!

خنجر تو آستیں میں چھپا لیجیے حضور!
ورنہ کہیں گے ہم نے بھروسہ نہیں کیا

آہا ہا! کیا بات ہے ۔ بہت خوب!

نومیدیوں کے بیچ میں اب سوچتا ہے دل
کیوں اعتبارِ وعدۂ فردا نہیں کیا

یہ بھی اچھا ہے! خوب!

مطلع بھی خوب ہے ۔ بہت اچھے!

راحل بھائی ، ویسے تو احتیاطاً مجھے یہیں رک جانا چاہئے لیکن عاطف بھائی سے اتفاق کرتے ہوئے میں بھی یہ کہوں گا کہ اس غزل کوکچھ دیر اور پال میں لگا رہنے دیتے تو مزید نکھر جاتی ۔ چند اشعار کی بنت واقعی ذرا ڈھیلی ہے جسے درست کرنا آپ کے بائیں ہاتھ کا کام تھا ۔ دوسری بات متروک الفاظ کے متعلق کہنا چاہوں گا۔ کسی دانا کا قول ہے کہ آدمی کو کھانا اپنی پسند کا کھانا چاہئے اور لباس دوسروں کی پسند کا پہننا چاہئے۔ میری ناقص رائے میں یہ اصول شعر پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے ۔ یعنی گھر (دماغ) کے اندر کھچڑی جس طرح بھی پک رہی ہو باہر والوں کو اس سے غرض نہیں۔ انہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ کھچڑی آپ چاندی کے ورق لگا کر پیش کرتے ہیں یا ادرک کی ہوائیاں چھڑک کر :)۔ چنانچہ زبان و بیان اگر عصری معیار کے مطابق نہ ہو تو عموماً شعر کے تاثر میں کمی رہ جاتی ہے۔ ( ویسے یہ کھانے اور لباس کا مقولہ ہمارے گھر میں ذرا مختلف طریقے سے رائج ہے ۔ الحمدللہ ، کھانا بھی ہماری بیگم کی پسند کا پکتا ہے اور میرے کپڑے بھی انہی کی مرضی سے آتے ہیں۔ البتہ پانی میں اپنی مرضی سے پیتا ہوں ، جب چاہے اور جتنا چاہے۔ مجال ہے جو کوئی روک لے۔ گھر کا سربراہ ہوں آخر۔ :D:D:D )

ایک دو اشعار پر بطور نقد و نظر یہ کہوں گا کہ آخر تک پہ یا آخر تلک پہ ٹھیک زبان نہیں ہے ۔ اسے بدل ہی دیں تو بہتر ہوگا ۔ مقطع میں دروں کا استعمال ٹھیک نہیں ہوا ہے ۔ دروں کو حرفِ اضافت کے بغیر استعمال نہیں کیا جاتا ۔ "گور کے دروں" یا "درونِ گور" درست ہوگا ۔ اہلِ قضا کی ترکیب بھی شعر کے سیاق و سباق میں مجھے مبہم لگ رہی ہے۔ اہل کی ترکیب عموماً یا تو اسمِ مکان کے ساتھ بنتی ہے (اہلِ خانہ ، اہلِ شہر ، اہلِ بزم وغیرہ) یا کسی صفت وغیرہ کے ساتھ ( اہلِ کرم ، اہلِ وفا ، اہلِ دل ، اہلِ ہنر وغیرہ) ۔ اگر اہلِ قضا کے بجائے اہلِ ستم کہا جائے تو میری رائے میں زیادہ بلیغ ہوجائے گا ۔ خیر ، یہ چھوٹی موٹی چیزیں کس کلام میں نہیں ہوتیں ۔ مجموعی طور پر اچھی غزل ہے ، راحل بھائی ۔ بہت داد!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ وا! بہت خوب راحل بھائی ! اچھی غزل ہے ۔ تغزل بھی ہے اور غزل کے روایتی مضامین بھی!

خنجر تو آستیں میں چھپا لیجیے حضور!
ورنہ کہیں گے ہم نے بھروسہ نہیں کیا

آہا ہا! کیا بات ہے ۔ بہت خوب!

نومیدیوں کے بیچ میں اب سوچتا ہے دل
کیوں اعتبارِ وعدۂ فردا نہیں کیا

یہ بھی اچھا ہے! خوب!

مطلع بھی خوب ہے ۔ بہت اچھے!

راحل بھائی ، ویسے تو احتیاطاً مجھے یہیں رک جانا چاہئے لیکن عاطف بھائی سے اتفاق کرتے ہوئے میں بھی یہ کہوں گا کہ اس غزل کوکچھ دیر اور پال میں لگا رہنے دیتے تو مزید نکھر جاتی ۔ چند اشعار کی بنت واقعی ذرا ڈھیلی ہے جسے درست کرنا آپ کے بائیں ہاتھ کا کام تھا ۔ دوسری بات متروک الفاظ کے متعلق کہنا چاہوں گا۔ کسی دانا کا قول ہے کہ آدمی کو کھانا اپنی پسند کا کھانا چاہئے اور لباس دوسروں کی پسند کا پہننا چاہئے۔ میری ناقص رائے میں یہ اصول شعر پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے ۔ یعنی گھر (دماغ) کے اندر کھچڑی جس طرح بھی پک رہی ہو باہر والوں کو اس سے غرض نہیں۔ انہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ کھچڑی آپ چاندی کے ورق لگا کر پیش کرتے ہیں یا ادرک کی ہوائیاں چھڑک کر :)۔ چنانچہ زبان و بیان اگر عصری معیار کے مطابق نہ ہو تو عموماً شعر کے تاثر میں کمی رہ جاتی ہے۔ ( ویسے یہ کھانے اور لباس کا مقولہ ہمارے گھر میں ذرا مختلف طریقے سے رائج ہے ۔ الحمدللہ ، کھانا بھی ہماری بیگم کی پسند کا پکتا ہے اور میرے کپڑے بھی انہی کی مرضی سے آتے ہیں۔ البتہ پانی میں اپنی مرضی سے پیتا ہوں ، جب چاہے اور جتنا چاہے۔ مجال ہے جو کوئی روک لے۔ گھر کا سربراہ ہوں آخر۔ :D:D:D )

ایک دو اشعار پر بطور نقد و نظر یہ کہوں گا کہ آخر تک پہ یا آخر تلک پہ ٹھیک زبان نہیں ہے ۔ اسے بدل ہی دیں تو بہتر ہوگا ۔ مقطع میں دروں کا استعمال ٹھیک نہیں ہوا ہے ۔ دروں کو حرفِ اضافت کے بغیر استعمال نہیں کیا جاتا ۔ "گور کے دروں" یا "درونِ گور" درست ہوگا ۔ اہلِ قضا کی ترکیب بھی شعر کے سیاق و سباق میں مجھے مبہم لگ رہی ہے۔ اہل کی ترکیب عموماً یا تو اسمِ مکان کے ساتھ بنتی ہے (اہلِ خانہ ، اہلِ شہر ، اہلِ بزم وغیرہ) یا کسی صفت وغیرہ کے ساتھ ( اہلِ کرم ، اہلِ وفا ، اہلِ دل ، اہلِ ہنر وغیرہ) ۔ اگر اہلِ قضا کے بجائے اہلِ ستم کہا جائے تو میری رائے میں زیادہ بلیغ ہوجائے گا ۔ خیر ، یہ چھوٹی موٹی چیزیں کس کلام میں نہیں ہوتیں ۔ مجموعی طور پر اچھی غزل ہے ، راحل بھائی ۔ بہت داد!
جزاک اللہ ظہیرؔ بھائی ۔۔۔ داد و پذیرائی اور تفصیلی جواب کے لیے شکر گزار ہوں ۔۔۔
آپ نے جو نکات اٹھائے اور استاد محترم اور عاطفؔ بھائی کے ارشادات سر آنکھوں پر ۔۔۔ ان شاء اللہ ان کی روشنی میں ضرور اصلاح اور ترمیم کرلوں گا۔
 
Top