غزل۔ جس طرح کی ہیں‌ یہ دیواریں، یہ در جیسا بھی ہے ۔انور مسعود

فرحت کیانی

لائبریرین
جس طرح کی ہیں یہ دیواریں ، یہ در جیسا بھی ہے
سر چھپانے کو میسر تو ہے گھر جیسا بھی ہے

اس کو مجھ سے، مجھ کو اس سے نسبتیں ہیں بے شمار
میری چاہت کا ہے محور یہ نگر جیسا بھی ہے

چل پڑا ہوں شوقِ بے پرواہ کو مرشد مان کر
راستہ پُر پیچ ہے یا پُر خطر جیسا بھی ہے

سب گوارہ ہے تھکن ساری دکھن ساری چبھن
ایک خوشبو کے لئے ہے یہ سفر جیسا بھی ہے

وہ تو ہے مخصوص اک تیری محبت کے لئے
تیرا "انور" باہنر یا بے ہنر جیسا بھی ہے


۔۔انور مسعود
 

فاتح

لائبریرین
بہت ہی اعلٰی کلام منتخب کیا ہے آپ نے فرحت۔
خصوصاً جس قسم کی چہ میگوئیاں ہماری ارضِ پاک کے سلسلے میں کی جا رہی ہیں اس لحاظ سے بھی حسبِ حال ہے۔
 

عمر سیف

محفلین
سب گوارہ ہے تھکن ساری دکھن ساری چبھن
ایک خوشبو کے لئے ہے یہ سفر جیسا بھی ہے


بہت عمدہ ۔۔۔۔
 

سارہ خان

محفلین
01clapping2.gif
 
Top