غزل۔ تھا پسِ محمل رخِ لیلی تو افسانہ ہوا۔ فضلِ حق

فرحت کیانی

لائبریرین
تھا پسِ محمل رخِ لیلی تو افسانہ ہوا
سب کی نظروں میں رہا تو قیس دیوانہ ہوا

موجِ خوں کے واسطے پیدا ہوا کہتے ہیں دل
جب مرے سینے میں در آیا تو غمخانہ ہوا

جاں کے دو انداز تھے وحشت نے دونوں لے لئے
اک جلا شمع کی صورت، ایک پروانہ ہوا

عقل سے انسان کو معبد کی دربانی ملی
دل کے رستے پر چلا تو محرم خانہ ہوا

پوچھتا تھا میرے گھر کا راستہ اغیار سے
کل اُسے اس حال میں دیکھا تو اچھا نہ ہوا

واعظا ، رہرو ہیں ، کوئی صاحبِ منزل نہيں
تم ہوئے ، یا میں ہوا ، یا رندِ میخانہ ہوا

مجھ فقیر رہ نشیں سے مت الجھ اے محتسب!
بھیس میں دیدہ وروں کے ، مست ہوں مانا ہوا

فضلِ حق
 
Top