غزلِ من

اپنی تو بلندی ہے ثریا سے بھی بڑھ کر
نایاب ہیں ہم دہر میں عنقا سے بھی بڑھ کر

نظروں نے تری کتنے ہی عاقل کیے مجنوں
تیرا تو ہے اعجاز مسیحا سے بھی بڑھ کر

تسبیح و نماز آہ کے آگے بھی ہیں کچھ شے
ہے راہِ وفا منزلِ تقویٰ سے بھی بڑھ کر

یہ وہم ہمارا ہے کہ ہم ہوگئے آزاد
ہیں اہلِ حرم اہلِ کلیسا سے بھی بڑھ کر

دریا بھی پیے تب بھی اثر کچھ نہ ہوا ہے
اب چاہیے کچھ بادہ و صہبا سے بھی بڑھ کر

زندہ جو ہوئے عشق سے موت ان کو نہ آئی
ہے ان کا ذکر قیصر و کسریٰ سے بھی بڑھ کر

یہ قصہِ ریحان سنو غورسے تم سب
یہ داستاں ہے مجنوں و لیلیٰ سے بھی بڑھ کر
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
تگا۔
دوسری بات، ذکر ہیر رانجھا، لیلی مجنوں یا وامق و عذرااچھی غزل ہے بس دو جگہ کچھ خامی محسوس کی ہے میں نے۔

زندہ جو ہوئے عشق سے موت ان کو نہ آئی
ہے ان کا ذکر قیصر و کسریٰ سے بھی بڑھ کر
÷÷پہلی بات تو یہ کہ شعر دو لخت ہے، یعنی قیصر و کسریٰ جا ذکر شہنشاہی کی ضمن میں آتا ہے، عشق کے لئے نہیں، یہاں لیلیٰ مجنوں، وامق و عذرا (جو بالکل افاعیل کا متبادل ہے یہاں) بہتر ہو گا۔
دوسری با ت۔۔ ذکر بر وزن درد، فعل ہے، تم نے بع وزن ’فعو‘ باندھا ہے۔ جو غلط ہے۔

یہ قصہِ ریحان سنو غورسے تم سب
یہ داستاں ہے مجنوں و لیلیٰ سے بھی بڑھ کر
مجنوں و لیلٰی غلط ہے۔ لیلی و مجنوں کہنا درست ہے۔ کیونکہ مجنوں کا نام پہلے لانے سے واو عطف آنے کے لئے غنہ نہیں، نون معلنہ کرنا پڑے گا۔ مجنون و لیلیٰ، اور اسے بحر کے مطابق ’مجنو ولیلا‘نہیں کیا جا سکتا۔یہاں بھی الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے، قیس لانے کی کوشش کی جائے یا ہیر رانجھا کی۔
 
بہت شکریہ جناب تو قیصر و کسریٰ والے شعر کو اگر یوں کر دیا جائے
زندہ جو ہوئے عشق سے موت ان کو نہ آئی
وہ زندہ خضر سے بھی ہیں عیسیٰ سے بھی بڑھ کر

اور مقطع میں لیلیٰ و مجنوں کی جگہ وامق و عذرا کر دیں تو ٹھیک رہے گا؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
زبان و بیان اور اوزان و آہنگ کے لحاظ سے تو بہت اچھا ہے مگر مصرعوں میں کہیں لفظی (مطلع میں ) کہیں معنوی پیوستگی نہیں (اہل حرم اور اہل کلیسا اس شعر میں آزادی کے عام اور وسیع مفہوم کو کسی طرح مخصوص کیا جانا چاہیئے اس کے بغیر شعر میں لطافت نہیں ۔) اس وجہ سے اسلوب اور مضامین میں زور کم لگ رہا ہے ۔ ویسے تراکیب مجموعی طور پر اچھی ہیں ، اعجاز بھائی نے بھی دولخطی کےاشارے بھی اچھے دیئے ہیں ۔
 
زبان و بیان اور اوزان و آہنگ کے لحاظ سے تو بہت اچھا ہے مگر مصرعوں میں کہیں لفظی (مطلع میں ) کہیں معنوی پیوستگی نہیں (اہل حرم اور اہل کلیسا اس شعر میں آزادی کے عام اور وسیع مفہوم کو کسی طرح مخصوص کیا جانا چاہیئے اس کے بغیر شعر میں لطافت نہیں ۔) اس وجہ سے اسلوب اور مضامین میں زور کم لگ رہا ہے ۔ ویسے تراکیب مجموعی طور پر اچھی ہیں ، اعجاز بھائی نے بھی دولخطی کےاشارے بھی اچھے دیئے ہیں ۔
نوازش جناب!
آزادی والا دراصل سیاسی مضمون ہے تو اس کے لیے شاید پڑھنے والے کو میرے بارے میں کچھ معلومات ہونی چاہییں۔ویسے سیاسی مضامیں آج کل عام فہم ہیں امید ہے پڑھنے والا اس میں سے کچھ نہ کچھ نکال ہی لے گا مگر
کوشش کروں گا کہ اس شعر کو تبدیل کر دوں۔
 
Top