غزل،'' گود میں ماضی کی جانے کب زمانے جا بسے'' براے اصلاح

گود میں ماضی کی جانے کب زمانے جا بسے
کب حقیقت کھل گئی اور کب فسانے جا بسے

فکر سے آزاد تھے اور گیت سنتے تھے سبھی
یار غم کی تان سُر میں سب ترانے جا بسے

دوستوں میں تھی محبت، حرص سے بیگانگی
بھول پن نکلا بدن سے، اور سیانے جا بسے

بستیوں کی جیسے بنیادیں تھیں پانی پر دھری
اک جگہ چھوڑی تو دوجی سب گھرانے جا بسے

نت نئے چہرے نظر آئیں شہر میں رات دن
دور پردیسوں میں جب سے سب پرانے جا بسے

نیند سے اُٹھتا ہے اظہر، خوف سے ڈرتا ہوا
خواب آتے ہیں بھانک، اور سہانے جا بسے
 

الف عین

لائبریرین
آج کل گھر میں انٹر نیٹ غائب ہے، یہ باہر دیکھ رہا ہوں، اور کاپی پیسٹ بھی نہیں کر سکتا۔ اسلئے انتظار کرو
 

عین عین

لائبریرین
ایک غزل اساتذہ کی رہنماٴی کے لیے،ٰٰ

پوسٹ کا عنوان محل نظر ہے
اظہر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا غور کرو۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر
 

الف عین

لائبریرین
عارف عزیز صاحب، وہ تو میں سمجھ گیا تھا کہ اظہر کی مراد اساتذہ سے رہنمائی کے حصول کی تھی، لیکن ’کی‘ سے واقعی خیال دونوں طرف جا سکتا ہے۔
 

عین عین

لائبریرین
عارف عزیز صاحب، وہ تو میں سمجھ گیا تھا کہ اظہر کی مراد اساتذہ سے رہنمائی کے حصول کی تھی، لیکن ’کی‘ سے واقعی خیال دونوں طرف جا سکتا ہے۔
..........................................
السلام علیکم ! جی حضرت سمجھ تو ہم سب گئے ہیں لیکن یوں ہی ذرا مزاح کی غرض سے اظہر کی توجہ دلائی ہے۔ واقعی ایک لفظ کی وجہ سے بات کیا سے کیا ہو جاتی ہے۔ دل چسپ بات ہے۔ امید ہے اظہر بھی واقف ہو گئے ہوں گے کہ میں نے کیا کہا ہے۔
 

عین عین

لائبریرین
نغمء رنگین و دل کش وہ ترانے جا بسے
گود میں رنج و الم کی سب زمانے جا بسے

اظہر کام آگیا اچانک ورنہ میں مزید اشعار کہہ رہا تھا۔ سلسلہ ٹوٹ گیا ہے۔ اور معلوم نہیں کہ یہ شعر تمھاری بحر پر ہے یا نہیں ہے۔ اندازہ کرو میں پھر آتا ہوں۔
 
نغمء رنگین و دل کش وہ ترانے جا بسے
گود میں رنج و الم کی سب زمانے جا بسے

اظہر کام آگیا اچانک ورنہ میں مزید اشعار کہہ رہا تھا۔ سلسلہ ٹوٹ گیا ہے۔ اور معلوم نہیں کہ یہ شعر تمھاری بحر پر ہے یا نہیں ہے۔ اندازہ کرو میں پھر آتا ہوں۔

السلام و علیکم جناب عین عین صاھب،
جی بلکل وہی بحر ہے رمل مثمن محذوف
 

عین عین

لائبریرین
تو پھر اظہر یہ بھی بتائو کہ تمھارے شعر میں جو تبدیلی کی ہے کیا وہ تمھارے مطلع سے بہتر معلوم ہوتی ہے یا تم سمجھتے ہو کہ تمھارا کہا ہوا ہی درست ہے? مجھے تو یہ اس طرح بہتر لگا اور مزید بہتری ہو سکتی ہے جلدی میں یہی سمجھ آیا۔
 
تو پھر اظہر یہ بھی بتائو کہ تمھارے شعر میں جو تبدیلی کی ہے کیا وہ تمھارے مطلع سے بہتر معلوم ہوتی ہے یا تم سمجھتے ہو کہ تمھارا کہا ہوا ہی درست ہے? مجھے تو یہ اس طرح بہتر لگا اور مزید بہتری ہو سکتی ہے جلدی میں یہی سمجھ آیا۔

بغیر کسی شک اور شبہہ کے اُس سے بہت بہتر اسلوب میں کہا گیا ہے، میں ذاتی طور پر کبھی بھی شعر کہتا نہیں ہوں، جیسا ذہن میں آتا ہے بلکل ویسا ہی لکھ دیتا جی
 

الف عین

لائبریرین
لو حاضر ہے اصلاح، ع ع بھی غور کریں۔
گود میں ماضی کی جانے کب زمانے جا بسے
کب حقیقت کھل گئی اور کب فسانے جا بسے
//درست

فکر سے آزاد تھے اور گیت سنتے تھے سبھی
یار غم کی تان سُر میں سب ترانے جا بسے
//مبہم ہے، سمجھ میں نہیں آ سکا۔

دوستوں میں تھی محبت، حرص سے بیگانگی
بھول پن نکلا بدن سے، اور سیانے جا بسے
// پہلے مصرع میں بات مکمل نہیں لگ رہی ہے، یوں بات صاف ہو جاتی ہے۔
حرص سے بیگانہ تھے سب، پیار بھی یاروں میں تھا
لیکن دوسرا مصرع؟ ’سیانے جا بسے‘ یا سینا پن جا بسا؟

بستیوں کی جیسے بنیادیں تھیں پانی پر دھری
اک جگہ چھوڑی تو دوجی سب گھرانے جا بسے
//یہاں بھی قافیہ سمجھ میں نہیں آتا۔ دوسری بات ’دوجی‘ کا استعمال۔ فلمی گانوں میں تو چل سکتا ہے لیکن غزل میں؟

نت نئے چہرے نظر آئیں شہر میں رات دن
دور پردیسوں میں جب سے سب پرانے جا بسے
//پہلے مصرع میں شہر کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے، ’ہ‘ متحرک نہیں ساکن درست ہے۔ بات بھی گرامر کی رو سے نا مکمل ہے۔ ’رات دن‘ کی جگہ ’ہر سمت‘ ہونا چاہئے۔
شہر میں ہر سو نظر آتے ہیں چہرے نِت نئے
دوسرا مصرع درست ہے۔

نیند سے اُٹھتا ہے اظہر، خوف سے ڈرتا ہوا
خواب آتے ہیں بھیانک، اور سہانے جا بسے
//خواب کہاں جا کر بس گئے؟ یہ واضح نہیں۔
 
لو حاضر ہے اصلاح، ع ع بھی غور کریں۔
گود میں ماضی کی جانے کب زمانے جا بسے
کب حقیقت کھل گئی اور کب فسانے جا بسے
//درست

فکر سے آزاد تھے اور گیت سنتے تھے سبھی
یار غم کی تان سُر میں سب ترانے جا بسے
//مبہم ہے، سمجھ میں نہیں آ سکا۔
شادمانی کے سُروں میں تھے جو گاتے رات دن
یار غم کی تان سُر میں سب ترانے جا بسے


دوستوں میں تھی محبت، حرص سے بیگانگی
بھول پن نکلا بدن سے، اور سیانے جا بسے
// پہلے مصرع میں بات مکمل نہیں لگ رہی ہے، یوں بات صاف ہو جاتی ہے۔
حرص سے بیگانہ تھے سب، پیار بھی یاروں میں تھا
لیکن دوسرا مصرع؟ ’سیانے جا بسے‘ یا سینا پن جا بسا؟
حرص سے بیگانہ تھے سب، پیار بھی یاروں میں تھا
اپنی اپنی بستیاں تنہا بسانے جا بسے

بستیوں کی جیسے بنیادیں تھیں پانی پر دھری
اک جگہ چھوڑی تو دوجی سب گھرانے جا بسے
//یہاں بھی قافیہ سمجھ میں نہیں آتا۔ دوسری بات ’دوجی‘ کا استعمال۔ فلمی گانوں میں تو چل سکتا ہے لیکن غزل میں؟
بستیوں کی جیسے بنیادیں تھیں پانی پر دھری
در بدر یوں پیٹ کا دوزخ بجھانے جا بسے

نت نئے چہرے نظر آئیں شہر میں رات دن
دور پردیسوں میں جب سے سب پرانے جا بسے
//پہلے مصرع میں شہر کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے، ’ہ‘ متحرک نہیں ساکن درست ہے۔ بات بھی گرامر کی رو سے نا مکمل ہے۔ ’رات دن‘ کی جگہ ’ہر سمت‘ ہونا چاہئے۔
شہر میں ہر سو نظر آتے ہیں چہرے نِت نئے
دوسرا مصرع درست ہے۔
شہر میں ہر سو نظر آتے ہیں چہرے نِت نئے
دور پردیسوں میں جب سے سب پرانے جا بسے


نیند سے اُٹھتا ہے اظہر، خوف سے ڈرتا ہوا
خواب آتے ہیں بھیانک، اور سہانے جا بسے
//خواب کہاں جا کر بس گئے؟ یہ واضح نہیں۔
نیند سے اُٹھتا ہے اظہر، خوف سے ڈرتا ہوا
خواب تک بھی نیند سے جیسے سہانے جا بسے


گویا اب صورتحال کچھ یوں بنی


گود میں ماضی کی جانے کب زمانے جا بسے
کب حقیقت کھل گئی اور کب فسانے جا بسے

شادمانی کے سُروں میں تھے جو گاتے رات دن
یار غم کی تان سُر میں سب ترانے جا بسے

حرص سے بیگانہ تھے سب، پیار بھی یاروں میں تھا
اپنی اپنی بستیاں تنہا بسانے جا بسے

بستیوں کی جیسے بنیادیں تھیں پانی پر دھری
در بدر یوں پیٹ کا دوزخ بجھانے جا بسے

شہر میں ہر سو نظر آتے ہیں چہرے نِت نئے
دور پردیسوں میں جب سے سب پرانے جا بسے

نیند سے اُٹھتا ہے اظہر، خوف سے ڈرتا ہوا
خواب تک بھی نیند سے جیسے سہانے جا بسے
 
مزید کچھ تبدیلیاں کی ہیں جناب


گود میں ماضی کی جانے کب زمانے جا بسے
کب حقیقت کھل گئی اور کب فسانے جا بسے

شادمانی کے سُروں میں تھے جو گاتے رات دن
یار غم کی تان سُر میں سب ترانے جا بسے

کار سرکاری حماقت، عقل ہے ناپید اب
احمقوں کا راج ہے جب سے سیانے جا بسے

شہر میں ہر سو نظر آتے ہیں چہرے نِت نئے
دور پردیسوں میں جب سے سب پرانے جا بسے

چور ہے، دل چھین لے گا، یار کی بستی تو ہے
لوٹتا بھی ہے پتہ، پھر بھی لٹانے جا بسے

خواب تک بھی نیند میں اظہر ڈرا دیتے ہیں اب
خوف سے جیسے کہیں سپنے سہانے جا بسے
 
Top